مطالعۂ حدیث

شرح مشکاۃ المصابیح

(حدیث نمبر 72-85)

72

عبد الله بن جابر رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: شيطان اس سے مايوس هوچكا هے كه جزيرهٔ عرب ميں نمازي لوگ اس كي پرستش كريں۔ ليكن وه ان كو ايك دوسرے كے خلاف بھڑكانے سے مايوس نهيں (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2812)۔

رسول اور اصحاب رسول كے ذريعےجو انقلاب آيا اس نے مذهبي بت پرستي كو اتنا زياده بےبنياد ثابت كرديا كه اب اس قسم كي مشركانه روش ميں نه سماجي عزت كا پهلو باقي رها اور نه مادي مفاد كا۔ اس لیےامت كے بعد كي نسلوں ميں گمراهي كھلي بت پرستي كے راستے سے نهيں آئے گي۔بلكه وه نفس پرستي اور مفاد پرستي كے راستے سے آئے گي۔ اس دوسري گمراهي كا اظهار اس طرح هوگا كه لوگ ذاتي مصلحتوں كے لیے آپس ميں ايك دوسرے سے لڑيں گے۔

73

عبد الله بن عباس رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم كے پاس ايك آدمي آيا۔ اس نے كها كه ميں اپنے دل ميں ايسي بات پاتا هوں كه زبان سے اس كو بولنے سے زياده مجھ كو پسند هے كه ميں جل كر كوئله هو جاؤں۔ آپ نے فرمايا كه اس خدا كا شكر جس نے اس طرح كے معامله كو وسوسه قرار ديا (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر5112)۔

موجوده دنيا ميں آدمي فتنوں اور آزمائشوں كے درميان جيتا هے۔ اس لیے كوئي آدمي اس سے نهيں بچ سكتا كه اس كے دل ميں غلط قسم كے خيالات آئيں۔ ليكن انسان كي پكڑ بولے هوئے قول اور كیے هوئے عمل پر هے، دل كے اندر گزرے هوئے خيالات پر نهيں۔

74

عبد الله بن مسعود رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: انسان كے اوپرايك اثر شيطان كا هے اور ايك اثر فرشتےكا۔ پس شيطان كا اثر تو شر سے ڈرانا اور حق كو جھٹلانا هے۔ اور فرشتے كا اثر نيكي پر ابھارنا اور حق كي تصديق كرنا هے۔ پس جو آدمي اس كو پائے تو اس كو جاننا چاهیے كه يه الله كي طرف سے هے۔ اور پھر وه الله كا شكر ادا كرے۔اور جو شخص دوسري كيفيت اپنے اندر پائے تو وه شيطان كےمقابلے ميں الله سے پناه مانگے۔ پھر آپ نے قرآن (2:268)كي يه آيت پڑھي:اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ ( شیطان تم کو محتاجی سے ڈراتا ہے اور بری بات کی تلقین کرتا ہے) سنن الترمذي، حدیث نمبر2988۔

انسان كے اندر دو مختلف قسم كے محركات كي خبر اس لیے دي گئي هے تاكه جب وه اپني زندگي ميں ان ميں سے كسي كي علامت ديكھے تووه اس كي حقيقت كو پهچان لے۔ ايك علامت پر وه شيطان سے بچنے كي كوشش كرے اور دوسري علامت پر وه خدا كا شكر ادا كرتےهوئے اس سے قريب هوجائے۔

75

ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسو ل الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: لوگ پوچھ گچھ كرتے رهيں گے يهاں تك كه كها جائے گا كه مخلوق كو خدا نے پيدا كيا تو خدا كو كس نے پيدا كيا۔ پھر جب لوگ ايسا كهيں تو تم كهو  : اللّٰهُ اَحَدٌ  ۔اَللّٰهُ الصَّمَدُ۔لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ ۔وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ( اللہ ایک ہے۔اللہ بےنیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد۔ اور کوئی اس کے برابر کا نہیں)۔ پھر وه اپنے بائيں طرف تين بار تُھتکارے، اور شيطان كے مقابلے ميں الله كي پناه مانگے (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر4722)۔

يه حديث موجوده دور ميں پيدا هونے والي عقليت پسندي كي پيشين گوئي هے۔ مگر اس ميں يه بھي بتادياگياكه اس قسم كا سوال خود وقت كے عقلي نقطه نظر سے سراسر بے بنياد هوگا۔ خدا كا وجود اتنا زياده واضح هے كه وه جس طرح پچھلے زمانے ميں ثابت شده تھا اسي طرح وه بعد كے زمانے ميں بھی ہے۔ اس بحث كے ضمن ميں يه سوال بالكل غير متعلق هے كه خدا كو كس نے پيدا كيا۔ خدا اگر پيدا كرنے سے وجود ميں آئے تو وه كائنات كو پيدا كرنے والا نهيں بن سكتا۔ خدا اپنے آپ ميں موجود هے اسي لیے وه اس كائنات كو وجود ميں لاسكا۔ كائنات كي موجودگي خداکي موجودگي كا ثبوت هے۔ اگر هم خدا كے وجود كا انكار كريں تو هميں كائنات كے وجود كا بھي انكار كرنا پڑے گا۔ چونكه هم كائنات كے وجود كا اقرار كرنے پر مجبور هيں اس لیے هم خدا كے وجود كا اقرار كرنے پر بھي مجبور هيں۔

اس معاملےميں خود عقلي سائنس كي رو سے كوئي دوسرا انتخاب همارے لیے سر ے سے ممكن نهيں۔ جديد سائنس نے كائنات كے ظهو ركے بارے ميں جو حقائق دريافت كیے هيں اس كے بعد اب انسان كے لیے انتخاب (choice) بے خدا كائنات اور باخدا كائنات كے درميان نهيں هے۔ بلكه با خدا كائنات اور غير موجود كائنات كے درميان هے۔ اگر هم خدا كے وجود كو نه مانيں تو هميں كائنات كے وجود كا بھي انكار كرنا پڑے گا۔ چونكه هم كائنات كے وجود كا انكار نهيں كرسكتے اس لیے هم خدا كے وجود كا بھي انكار نهيں كرسكتے۔ جديد سائنسي دريافتوں كے بعد خدا كے وجود كو ماننا اتناهي لازمي بن چكا هے جتنا كه كائنات كے وجود كو ماننا۔(تفصیل کے لیے راقم الحروف کی کتابوں کو دیکھیے: مذہب اور جدید چیلنج، خدا کی دریافت، وغیرہ)

76

انس بن مالك رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: لوگ برابر سوال كرتے رهيں گے۔ يهاں تك كه وه كهيں گے كه اگر خدا نے تمام چيزوں كو پيدا كيا هے تو خدا كو كس نے پيدا كيا۔ يه بخاري كي روايت هے۔ اور مسلم كي روايت ميں اس طرح هے۔ الله تعالي نے فرمايا تمهاري امت كے لوگ برابر كهتے رهيں گے۔ يه كيا اور يه كيا۔ يهاں تك كه وه كهيں گے كه خدا نے مخلوقات كو پيدا كيا تو خدا كو كس نے پيدا كيا (متفق عليه: صحیح البخاري، حدیث نمبر 7296 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 136)۔

اس حديث سے معلوم هوتا هے كه بعد كے زمانے ميں جب عقلي بحثوں كا زور بڑھے گا تو خود امت مسلمه كے لوگ بھي ذهني طورپر اس سے متاثر هوجائيں گے۔ اور وه بھي وقت كي بولي بولنے لگيں گے۔ اس زمانے ميں اس قسم كي گمراهي كا مقابله كرنے كے لیے جو فكري جدوجهد دوسرے لوگوں پر كي جائے گي۔ وهي خود امت كي فكري اصلاح كے لیے بھي ضروري هوگي۔

77

عثمان بن ابي العاص رضي الله عنه كهتے هيں كه ميں نے كها كه اے الله كے رسول شيطان ميرے اور ميري نماز اور ميري قرأت كے درميان حائل هوجاتا هے اور مجھ پر نماز میں شبہ ڈالتا ہے ۔ رسو ل الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: يه وه شيطان هےجس كو خِنزَب كهاجاتا هے۔ پس جب تم اس كو محسوس كرو تو تم اس سے الله كي پناه مانگو۔ اور اپنے بائيں طرف تين بار تھتکا رو۔ پس ميں نے ايسے هي كيا تو الله نے اس كو مجھ سے دور كرديا (صحیح مسلم، حدیث نمبر68)۔

اس حديث ميں جومخصوص طريقه بتايا گيا هے اس كي حيثيت اضافي هے۔ اس كا اصل مدعا يه هے كه جب بھي كسي آدمي كو يه محسوس هو كه شيطان اس كو خدا كي ياد سے هٹا رها هے تو وه فوراً تعوذ كے كلمات زبان سے ادا كركے شيطان سے پناه مانگے۔ يه گويا اپنے آپ كو غفلت سے نكال كر شعور كي حالت ميں لانا هے۔ يه خدا كي مدد سے شيطان كے اوپر قابو پانا هے۔قرآن میں رہنمائی کی گئی ہے : جو لوگ ڈر رکھتے ہیں جب کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انھیں چھو جاتا ہے تو وہ فوراً(اللہ کو) یاد کرتے ہیں اور پھر اسی وقت ان کو سوجھ آجاتی ہے (7:201)۔

78

قاسم بن محمد تابعي سے ايك آدمي نے سوا ل كيا۔ اس نے كها كه مجھے اپني نماز ميں وهم پيش آتا هے۔اور يه مجھ پر بهت گراں گزرتا هے۔ انھوں نے اس آدمي سے كها كه تم اپني نماز جاري ركھو۔ كيوں كه يه چيز تم سے جانے والي نهيں، يهاں تك كه تم اپني نماز پوري كرو اور كهو كه ميں نے اپنی نماز پوري نهيں کی (موطا امام مالك، حدیث نمبر3)۔

اس معاملے كا تعلق جس طرح نماز سے هے اسي طرح اس كا تعلق دوسرے ديني اعمال سے بھي هے۔ اس دنيا ميں يه مطلوب نهيں كه آدمي كا احساس يه هو كه ميں نے معياري عمل كرليا۔ اس كے برعكس، آدمي كا احساس يه هونا چاهیے كه مجھ سے معياري عمل نه هوسكا۔ اپنے عمل كو كامل سمجھنا، منافقت كي علامت هے، اور اپنے عمل كو ناقص سمجھنا اخلاص كي علامت۔

79

عبد الله بن عمرو رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: الله نے مخلوق كي تقديروں كو لكھ ديا هے، زمين وآسمان كي پيدائش سے پچاس هزار سال پهلے۔ آپ نے فرمايا كه اس وقت الله كا تخت پاني كے اوپر تھا (صحیح مسلم، حدیث نمبر16)۔

يهاں تقدير سے مراد منصوبهٔ الٰهي هے۔ خدا كي پيدا كي هوئي زمين ميں پهلے پاني كا دور آيا، اس كے بعدسطح زمين پر زندگي كا دور شروع هوا۔ هزاروں سال پهلے تقدير كو لكھنے كا مطلب يه هے كه خدا نے پيشگي طورپر اُس كورس كو متعين كرديا جس كے تحت انساني قافلے كو اپنا سفر كرنا تھا۔ اور اس فطري قانون كو طے فرماديا جس كے دائرے ميں هر فرد كو اپنا عمل انجام دینا تھا۔

 جدیدسائنس کی روشنی میں جب ہم اِس معاملے پر غور کرتے ہیں تو تقدیر کا ایک اہم سُراغ (clue) ڈی این اے (DNA) کی شکل میں ملتا ہے۔جدید سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ ہر انسان کا ڈی این اے اس کی شخصیت کا مکمل انسائیکلو پیڈیا ہے۔ ہر انسان کے ڈی این اے میں اس کی شخصیت کی تمام خصوصیات کوڈ کی شکل میں درج ہیں، جن کی مسلسل طور پر ڈی کوڈنگ (de-coding) ہوتی رہتی ہے۔ آدمی کے بیشتر عادات و افعال اسی ڈی این اے کے زیر اثر واقع ہوتے ہیں۔

80

عبد الله بن عمر رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: هر چيز مقرر اندازه پر هے، يهاں تك كه عاجزي اور دانش مندي بھي (صحیح مسلم،حدیث نمبر 18)۔

انسانوں كي صلاحيتيں يكساں نهيں۔ اس دنيا ميں هر انسان كو الگ الگ استعداد كے ساتھ پيدا كيا گيا هے۔ دنيا كے نظام كو كاميابي كے ساتھ چلانے كے لیے ايسے لوگ بھي دركار هيں جو جسماني طاقت ميں زياده هوں اور ايسے لوگ بھي جن كے اندر ذهني طاقت زياده پائي جائے۔ يه مقدرات هيں، اور وه اس لیے هيں تاكه اس دنيا ميں زندگي كا نظام مجموعي طورپر كاميابي كے ساتھ چلتا رهے۔

81

ابوهريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: آدم اور موسي نے اپنے رب كے سامنے حجت كي تو آدم اس بحث ميں موسي پر غالب آگئے۔ موسي نے كها كیا آپ وه آدم هيں جن كو الله نے اپنے هاتھ سے پيدا كيا اور آپ کے اندر اپني روح پھونكي۔ اور اپنے فرشتوں سے آپ كو سجده كرايا۔ اور آپ كو اپني جنت ميں ٹھهرايا۔ پھر آپ نے اپني لغزش كي وجه سے لوگوں كو نيچے اتارديا۔ آدم نے كها كه آپ وه موسي هيں جس كو الله نے اپني پيغمبري كے لیے اور اپني هم كلامي كے لیے چنا۔ اور آپ كو تختياں ديں، جس ميں هر چيز كا بيان هے۔ اور آپ كو هم كلامي كے ذريعے قربت دي۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ نے میری پیدائش سے کتنے عرصہ پہلے توراۃ کو لکھ دیا تھا ؟ موسي نے كها كه چاليس سال پهلے۔ آدم نے كها كه کیا آپ نے اس میں لکھا ہوا پایا کہ آدم نے اپنے رب كي نافرماني كي، پھر وه راستہ سے دور ہو گئے(طه، 20:121)۔ موسي نے كها كه هاں۔ آدم نے كها كه كيا آپ مجھے ايك ايسے فعل كي ملامت كرتے هيں، جو الله نے لكھ دياتھا كه ميں اس كو كروں، اور يه ميري پيدائش سے چاليس سال پهلے هوچكاتھا۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا كه پھر آدم موسي پر غالب آگئے (صحیح مسلم، حدیث نمبر2652)۔

انسان آزاد ہے یا مجبور۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ففٹی ففٹی کا معاملہ ہے۔اس حديث كا مطلب انسان كو يه بتانا هے كه وه دو چيزوں كے درميان هے۔ ايك تقدير الٰهي، اور دوسرے ذاتي اختيار۔ انسان ایک اعتبار سے آزاد ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ مجبور ہے۔ اپنی روز مرہ کی زندگی میں ہر عورت اور مرد آزادانہ طور پر اپنا کام کرتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ بار بار محسوس کرتے ہیں کہ ان کی ذات کے باہر بھی کچھ طاقتیں ہیں جن کو نظر انداز کر کے وہ اس دنیا میں اپنا کام نہیں کر سکتے۔

یہ دو طرفہ تقاضے کیا ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ایک ہے خود انسان کی شخصیت، اور دوسری چیز ہے وہ حالات جن کے درمیان کسی آدمی کو اپنا کام کرنا پڑتا ہے۔ اِن حالات کو فطرت کا قائم کیا ہوا انفراسٹرکچر (infrastructure) کہا جاسکتا ہے۔ جہاں تک انسان کی ذات کا تعلق ہے وہ پوری طرح آزاد ہے۔ انسان کو اختیار ہے کہ وہ جس طرح چاہے سوچے، وہ جو بات چاہے بولے، جس رخ پر چاہے اپنی زندگی کا سفر طے کرے۔ اس اعتبار سے انسان مکمل طور پر آزاد ہے۔

دوسری چیز وہ ہے جس کو انفراسٹرکچر کہا جاسکتا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر مکمل طور پر فطرت کا قائم کیا ہوا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر دنیا میں اپنے آپ قائم ہے۔ انسان کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ اس انفراسٹرکچر کو بدل ڈالے یا اس کو نظر انداز کر کے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔

مثال کے طور پر ایک انسان زمین پر چلتا ہے۔ یہ چلنا انسان کی اپنی آزادی کا معاملہ ہے۔ لیکن اس چلنے کے لیے ضرورت ہے کہ آدمی کے قدموں کے نیچے ایک زمین ہو ۔ اس زمین کے اندر قوتِ کشش ہو، اور پھر انسان کے اوپر ہوا کا دباؤ ہو، وغیرہ۔ یہ چیزیں خارجی انفراسٹرکچر کی حیثیت رکھتی ہیں، اور اس خارجی انفراسٹرکچر کے بغیر چلنے کا عمل ممکن نہیں، نہ کسی عورت کے لئے اور نہ کسی مرد کے لئے۔ یہی معاملہ دوسری ان تمام چیزوں کا ہے جن کے درمیان انسان اپنا عمل کرتا ہے۔

اسی طرح انسان سانس لیتا ہے۔ سانس لینا یا نہ لینا انسان کے اپنے اختیار کی بات ہے۔ لیکن درست طور پر سانس لینے کے لیے ضروری ہے کہ باہر کی دنیا میں آکسیجن کی سپلائی کا نظام موجود ہو۔ آکسیجن کی مسلسل سپلائی کے بغیر کوئی آدمی سانس نہیں لے سکتا۔ جب کہ سانس کے بغیر انسان کے لئے اس دنیا میں زندہ رہنا ممکن نہیں۔

یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان دو طرفہ تقاضوں کے درمیان ہے۔ ایک اعتبار سے وہ آزاد ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ مجبور ہے۔ اپنے ارادے کے استعمال کے اعتبار سے وہ پوری طرح آزاد ہے۔ لیکن اس اعتبار سے وہ مجبور ہے کہ اپنے ارادے کا آزادانہ استعمال وہ خالق کے مقرر کیے ہوئے انفراسٹرکچر کے بغیر نہیں کر سکتا۔جبر و اختیار کی اس درمیانی صورتِ حال کو علم العقائد میں وَسَطِیّہ کہا جاتا ہے۔ یہی وسطیہ کا نظریہ اس معاملے میں صحیح نظریہ ہے۔

 آدمي اگر صرف پهلي چيز كو ياد ركھے تو اس كےاندر بےعملي پيدا هوگي۔ اور اگر وه صرف دوسري چيز كو ياد ركھے تو اس كے اندر غير حقيقت پسندانه اعتماد پيدا هوگا۔ متوازن شخصيت كي تعمير كے لیے ضروري هے كه آدمي كي نگاه دونوں حقيقتوں كے اوپريكساں طور پر رهے۔

82

عبد الله بن مسعود رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے هم سے فرمايا— اور آپ صادق ومصدوق هيں— تم ميں سے هر ايك كا وجود اس كي ماں كے پيٹ ميں چاليس دن تك نطفه كي صورت ميں رهتا هے۔ پھر وه اتنے هي دنوں تك علقه كي صورت ميں رهتا هے۔ پھر وه اتنے هي دنوں تك گوشت كے ٹكڑے كي صورت ميں رهتا هے، پھر الله ايك فرشته كو چار باتوں كے ساتھ بھيجتا هے۔ پھر وه لكھتا هے اس كا كام ا ور اس كي موت اور اس كا رزق اور يه كه وه شقي هے يا سعيد۔ پھر اس كے اندر روح پھونكي جاتي هے۔ پس اس ذات كي قسم جس كے سوا كوئي معبود نهيں تم ميں سے ايك شخص اهل جنت والا كام كرتا رهتا هے۔ يهاں تك كه اس كے اور جنت كے درميان صرف ايك هاتھ كا فاصله ره جاتا هے۔ پھر تقدير كا لكھا هوا اس پر غالب آجاتا هے۔ پھر وه اہلِ دوزخ كا كام كرتا هے۔ اور وه دوزخ ميں جاگرتا هے۔ اسي طرح تم ميں كا ايك شخص دوزخيوں كا عمل كرتا رهتاهے۔ يهاں تك كه اس كے اور دوزخ كے درميان صرف ايك هاتھ كا فاصله باقي رهتا هے۔ پھر تقدير كا لكھا هوا اس پر غالب آجاتا ہے۔ اور وه اهل جنت كا عمل كرتا هے پھر وه جنت ميں داخل هوجاتا هے (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر3208؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر1)۔

اس حديث ميں ايك مثال كي صورت ميں فطرت كے ايك قانون كو بتايا گيا هے۔ اور وه يه كه آدمي كے انجام كا دارومدار اس كے آخري عمل پر هے۔ آدمي كو چاهیے كه اگر اس كو نيك عمل كي توفيق مل رهي هے تو وه اس پر گھمنڈ کی نفسیات میں مبتلا نه هو۔ عين ممكن هے كه بعد كو پيش آنے والي كسي آزمائش ميں وه پورا نه اترے اور اس كي زندگي كا رخ بدل جائے۔اسي طرح اگر كوئي شخص برائي ميں مبتلا هو تو لوگوں كو اس سے نفرت نهيں كرنا چاهیے۔ كيا معلوم اس پر كوئي ايسا تجربه گزرے جو اس كي اصلاح كردے اور اس كي زندگي كا رخ برائي سے نيكي كي طرف مڑ جائے۔

83

سهل بن سعد رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ايك بنده اهل دوزخ كا عمل كرتا هے۔ حالانكه وه اهلِ جنت ميں سے هوتا هے۔اور ايك بنده اهل جنت كا عمل كرتا هے۔ حالانكه وه اهلِ دوزخ ميں سے هوتا هے۔ اور اعمال كا اعتبار آخري عمل پر هے(متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر6607، صحیح مسلم، حدیث نمبر112)۔

اس حديث كا مطلب يه هے كه آدمي كے انجام كا فيصله خصوصي امتحان كے وقت هوتا هے۔ یہ روایت کنڈیشننگ (conditioning) کے اصول سے اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ہر پیدا ہونے والالازمی طور پر اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ ماحول کا پروڈکٹ بن جاتا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر1385) ۔ ایسی حالت میں ایمان قبول کرنا، اس کے ذہن کے لیے ایک ایسی حقیقت کوقبول کرنا ہے جو اس کے لیے بالکل نئی ہے۔اس لیے ہمیشہ یہ اندیشہ رہتا ہے کہ آدمی نئی چیز کو متاثر ذہن (conditioned mind) کے ساتھ دیکھے، اور اس کو درست طور پر سمجھ نہ سکے۔ ایسی حالت میں ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایمان لانے سے پہلے پیشگی طور پر ایک کام کرے۔ یعنی اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) تاکہ وہ ایمان و معرفت کے آئٹم کو کھلے ذہن کے ساتھ دیکھے، اور بے آمیز صورت میں اس کو لے سکے۔ایمان گویا تطہیر ذہن (purification of the mind) کا معاملہ ہے۔ اس تطہیر (purification) کے بغیر کوئی بھی شخص ایمان کو حقیقی طور پر نہیں پا سکتا۔ اس کے بغیر اگر وہ ایمان قبول کرتا ہے تو اس کا ایمان، قرآن کے مطابق، داخل القلب ایمان (49:14) نہ ہوگا، بلکہ وہ ایمان لپ سروس (lip service) کے طور پر ہوگا، اور لپ سروس والا ایمان اللہ کے یہاں معتبر نہیں ۔

 ايك آدمي بظاهر اچھا عمل كرتا هے مگر کنڈیشننگ کی وجہ سے اس كے دل ميں كھوٹ رہتا هے۔ امتحان كے وقت يه كھوٹ سامنے آجاتا هے ۔اور وه اس كو برے انجام كا مستحق بنا ديتاهے۔ اسي طرح ايك آدمي بظاهر برا عمل كرتا هے مگر اس كے دل كے اندر سچائي كي تلاش کا جذبہ موجود ہوتا هے، پھر كوئي واقعه پيش آتا هے اس كے بعد يه چنگاري بھڑك اٹھتي هے اور اس كي زندگي برائي سے هٹ كر نيكي كے رخ پر چلنے لگتي هے۔ اس طرح ايك بظاهر برا شخص متلاشیٔ حق ہونے کی بنا پر آخرميں جنتي بن جاتاهے۔اور اس كے برعكس ايك بظاهر اچھا شخص اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے ابدی طور پر ناکام لوگوں كي فهرست ميں شامل ہو جاتا هے۔

84

عائشه رضي الله عنها كهتي هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم كو ايك انصاري بچه كے جنازه ميں بلايا گيا ۔ ميں نے كها: اے خدا كے رسول، اسے خوش خبري هو كه وه جنت كي چڑيوں ميں سے ايك چڑيا هے جس نے نه تو گناه كيا اور نه گناه كا وقت پايا۔ آپ نے کہا: اے عائشه، اس كے سوا بھي هوسكتا هے۔ الله نے كچھ جنت والے پيدا کیے جنھيں ان كے باپ كي پيٹھوں ميں جنت كے لیے بنايا۔ كچھ آگ والے پيدا كیے جنھيں ان كے باپ كي پيٹھوں ميں دوزخ كے لیے بنايا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2662)۔

اس حديث ميں غالباً اس بات پر زور ديا گيا هے كه جنت ميں داخله كا تعلق عمر سے يا كسي اور نسبت سے نهيں هے۔ جنت ايك بے حد قيمتي جگه هے۔ قرآن کے مطابق، جنت وہ جگہ ہے جہاں  تاریخِ انسانی کی ربّانی شخصیات سچائی کی دنیا میں ابدی جگہ پائیں گے (54:55)۔ جنت خدا کے پڑوس (66:11)میں رہنے کا نام ہے۔ اس ميں داخله كا استحقاق كسي كو صرف اللہ رب العالمین كی رحمت سے ملے گا۔ كوئي اور چيز آدمي كے لیے جنت كي قيمت نهيں بن سكتي۔

85

علي ابن ابي طالب رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: تم ميں سے هر شخص كا ٹھكانا لكھا جاچكا هے، يا جهنم ميں يا جنت ميں۔ لوگوں نے كها كه اے خدا كے رسول، كيا هم اپنے لكھے هوئے پر بھروسه كرليں اور عمل كرنا چھوڑ ديں۔ آپ نے فرمايا كه تم لوگ عمل كرتے رهو۔ هر شخص كے لیے اُسي كو آسان كيا جائے گا جس طرف وہ بڑھے گا۔ چنانچہ جو شخص حق کا متلاشی هو اس كو حق كے راستہ كي توفیق دي جاتي ہے۔ اور جو آدمي اهل شقاوت ميں سے هو تو اس کے لیے ضلالت کا راستہ آسان ہوجاتاہے۔ اس كے بعد آپ نے قرآن كي سوره الليل سےیہ آیتیں (5-10) تلاوت فرمائي—  پس جس نے مال خرچ کیا اور تقوی کا طریقہ اختیار کیا۔ اور اس نے بھلائی کو سچ مانا۔ تو اس کو ہم آسان راستہ کے لیے سہولت دیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور بے پروا رہا۔ اور بھلائی کو جھٹلایا۔ تو ہم اس کو مشکل راستہ کے لیے سہولت دیں گے(متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر 1362؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر2039)۔

’’آسان راستہ‘‘ یعنی فطری راستہ یا جنت کا راستہ۔ ’’مشکل راستہ‘‘ یعنی ابدی ناکامی کا راستہ۔ قرآن كي سوره الليل كي مذكوره آيتوں كي روشني ميں اس حديث كي تشريح كي جائے تو اس كا مطلب يه هوگا كه جنت يا جهنم كسي كو اتفاقي ا سباب سے نهيں ملتي۔ جس آدمي كے اندر سعادت كي چنگاري هو،یعنی جو سچائی کا متلاشی ہو، اس كو الله تعالي قبوليت دے كر اس كے لیےجنت كا راسته آسان كرديتا هے۔ اور جس كے اندر شقاوت كا مرض هو اس كو ايسے راستے كي طرف ڈھيل دے دي جاتي هے جو جهنم كي طرف جانے والا هو۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom