طالبِ جنت

ایک حدیث رسول میں طالب جنت کے لیے یہ الفاظ آئے ہیں: مَا رَأَیْتُ... مِثْل الجَنَّةِ نَامَ طَالِبُہَا (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2601)۔ یعنی میں نے نہیں دیکھا، جنت جیسی چیز، جس کا طالب سورہا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ جنت اس کے لیے ہے، جو سراپا طالب جنت بن جائے۔ جو جنت کی حقیقت کو اتنی زیادہ گہرائی کے ساتھ دریافت کرے کہ جنت اس کا انتظار بن جائے۔ وہ جنت کی یاد میں سوئے، اور جنت کی یاد میں جاگے۔ جس کا احساس یہ بن جائے کہ اللہ نے اگر اس کو جنت نہ دی تو اس کا حال کیا ہوگا۔ اگر وہ آخرت میں جنت سے محروم ہوجائے، تو اس کا کتنا زیادہ برا حال ہوجائے گا۔ اس کے لیے زندگی کتنی بڑی مصیبت بن جائے گی۔

جنت کا طالب وہ ہے، جو جنت کو دیکھے بغیر جنت کو دیکھنے لگے۔ جو جنت کو پانے سے پہلے جنت کا طالب حقیقی بن جائے۔ طالب جنت کی تصویر قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کی گئی ہے:وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَہَا لَہُمْ (47:6)۔ یعنی اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جس کی اس نے انھیں پہچان کرا دی ہے۔ اس آیت میں جنت کی معرفت کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ مگر وہ مومن کی صفت ہے۔ مومن وہ ہے، جو جنت کو اس طرح دریافت کرے کہ جنت اس کا شوق بن جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جنت کیا ہے، اس سے لوگوں کو پیشگی طور پر آگاہ کردیا گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صاحبِ ایمان جنت کے بارے میں اپنی معرفت کو اتنا زیادہ بڑھاتا ہے کہ جنت اس کے لیے پیشگی طور پر ایک معلوم چیز بن جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جنت ایک ایسا مطلوب ہے، جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے طالبِ جنت کا مثنی (counterpart) ہے۔ وہ فطری طور پر انسان کا ایک معلوم مسکن ہے۔ گویا کہ جنت انسان کے لیے ہے، اور انسان جنت کے لیے۔ لیکن جنت کا شوق جنت کے حصول کے لیے کافی نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ضروری تیاری کرے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom