خدا کا منصوبۂ تخلیق

اللہ نے ایک معیاری دنیا بنائی۔ ہر اعتبار سے یہ ایک پرفکٹ دنیا تھی۔ اللہ نے یہ مقدر کیا کہ اِس معیاری دنیا میں ایسے افراد بسائے جائیں جو ہر اعتبار سے معیاری انسان ہوں۔ اِس مقصد کے لیے اللہ نے انسان کو پیدا کرکے اِس کو سیارۂ ارض پر آباد کیا۔ اس نے انسان کو مکمل آزادی عطا کی۔ موجودہ دنیا اِس منصوبے کے لیے ایک سلیکشن گراؤنڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ تاریخ کے خاتمے پر یہ ہوگا کہ آزادی کا غلط استعمال کرنے والے افراد ریجکٹ کردیے جائیں گے، اور جن افراد نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا، اُن کو منتخب کرکے جنت میں آباد کردیا جائے گا۔ جنت کے تصور کوکچھ لوگ انسانی تمناؤں کی خوب صورت نظریہ سازی (beautiful idealization of human wishes) کا نام دیتے ہیں۔ مگر زیادہ صحیح یہ ہے کہ جنت کے تصور کو انسانی تاریخ کی خوب صورت تعبیر(beautiful interpretation of human history) کہا جائے۔

خدا کا تخلیقی منصوبہ

خدا کے اِس تخلیقی منصوبے کے آغاز کا ذکر قرآن کی سورہ البقرہ میں آیا ہے۔ اِن آیات کا ترجمہ یہ ہے:’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اُس میں فساد برپا کریں اور خون بہائیں، اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا: میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے سکھادیے آدم کو سارے نام، پھر ان فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے اِن لوگوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے‘‘۔ (2:30-32)

اصل یہ ہے کہ فرشتے پورے انسانی مجموعے کو دیکھ کر اپنی رائے بنا رہے تھے۔ اللہ نے ایک مظاہرہ کے ذریعے واضح کیا کہ خدائی تخلیق کا نشانہ مجموعہ نہیں ہے، بلکہ افراد ہیں۔ مجموعے کی سطح پر اگرچہ بگاڑ آئے گا، لیکن افراد کی سطح پر ہمیشہ اچھے افراد وجود میں آتے رہیں گے۔ خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، موجودہ دنیا ایک سلیکشن گراؤنڈ (selection ground) ہے، یعنی پورے مجموعے میں سے مطلوب افراد کا انتخاب کرنا۔ تخلیق کا نشانہ یہ نہیں ہے کہ انسان اِسی سیارۂ ارض پر معیاری نظام بنائے، بلکہ تخلیق کا نشانہ یہ ہے کہ ہر دور اور ہر نسل میں سے اُن افراد کو منتخب کیا جائے، جو کامل آزادی کے باوجود اپنے آپ کو بطور خود ضابطۂ خداوندی کا پابند بنا لیں۔

معیاری افراد کا انتخاب

خدا کے اس منصوبۂ تخلیق کے مطابق، خالق نے موجودہ دنیا کو اِس لیے نہیں بنایا ہے کہ یہاں مجموعے کی سطح پر معیاری نظام (ideal system) بنایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں ہر انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے، وہ چاہے مصلح بن کر رہے یا مفسد بن کررہے۔ اِس لیے یہاں مجموعہ کی سطح پر کبھی معیاری نظام نہیں بن سکتا۔ معیاری نظام کا مقام صرف جنت ہے، اور وہ جنت ہی میں بنے گا۔

موجودہ دنیا دراصل معیاری افراد کا انتخابی میدان (selection ground) ہے۔ یہاں ہر نسل سے معیاری افراد کا انتخاب کیا جارہا ہے۔ مثلاً آدم کی پہلی نسل میں قابیل، قابلِ رد تھا اور ہابیل، قابلِ قبول۔ یہی معاملہ پوری تاریخ میں پوری طرح جاری ہے۔ ہر دور میں اور ہر نسل میں خدا معیاری افراد کو منتخب کررہا ہے اور غیر معیاری افراد کو رد کررہا ہے۔ ردّوقبول کے اِسی معاملے کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِینَ، وَثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِینَ (56:39-40)۔ یعنی اگلوں میں سے ایک بڑا گروہ، اور پچھلوں میں سے بھی ایک بڑا گروہ۔

قابلِ قبول اور قابلِ رد انسانوں کی یہ مطلوب فہرست جب مکمل ہوجائے گی تو اس کے بعد خالق کائنات موجودہ دنیا کو ختم کرکے ایک اور دنیا بنائے گا، جہاں وہ معیاری دنیا ہوگی، جس کو جنت کہاجاتاہے۔ قابلِ قبول افراد اِس جنت میں بسا دیے جائیں گے، جہاں وہ ابد تک خوف وحزن سے پاک زندگی گزاریں گے۔ اس کے برعکس، ناقابلِ قبول افراد کو رد کرکے کائناتی کوڑے خانے میں ڈال دیاجائے گا، جہاں وہ ابد تک حسرت کی زندگی گزاریں گے۔

انسان سے مطلوب

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو احسن تقویم کی صورت میں پیدا کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ فرمایا کہ انسان کو اسفل سافلین کی حالت میں ڈال دیا گیا ہے(التین،95:4-5)۔ یہ بات لفظی معنی میں نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ خود قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے جنت سے مشابہ دنیا ہے (البقرۃ، 2:25)۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا کی زندگی مادی معنوں میں اسفل نہیں ہے۔ بلکہ وہ نفسیاتی معنی میں احساسِ محرومی کی زندگی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ انسان کو اعلیٰ ذوق (high taste) کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ اس لیے ایسا ہے کہ موجودہ دنیا کی مادی نعمتیں انسان کو فل فل منٹ (fulfillment) کے درجے میں تسکین نہیں دیتیں۔ خواہ انسان کو دنیوی نعمتیں کتنی ہی زیادہ حاصل ہوجائیں۔ مثلاً امریکا کے بل گیٹس (Bill Gates)کے لیے اس کی دولت تسکین کا ذریعہ نہیں بنی۔چنانچہ انھوں نے اپنی دولت کا بڑا حصہ چیرٹی میں دے دیا۔ امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ (Donald Trump)کو وائٹ ہاؤس میں پہنچ کر سکون نہیں ملا۔ چنانچہ انھوں نے وائٹ ہاؤس کو کوکون (cocoon) بتایا۔

اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ موجودہ دنیا کو جنت کے مشابہ دنیا کے طور پر دریافت کرے۔ دنیا کی جنت خود جنت نہیں ہے، بلکہ وہ جنت ِ آخرت کا ابتدائی تعارف ہے۔انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی نعمتوں کودیکھ کر جنت ِ آخرت کو دریافت کرے۔ اس کے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہو، اور لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ (14:7) کے مطابق وہ جنتِ ِآخرت کا مستحق بنے، یعنی اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو زیادہ دوں گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom