اصحابِ اعراف
قرآن میں آخرت کے ایک گروہ کا ذکر ہے، جن کو اصحاب الاعراف (الاعراف، 7:46-49) کہا گیا ہے۔اعراف عرف کی جمع ہے۔ اس کا لفظی مطلب عربی زبان میں بلندی کے ہوتے ہیں۔ اعراف والے کا مطلب ہے بلندیوں والے۔یہ کون لوگ ہیں۔ اس سے مراد پیغمبروں اور داعیوں کا گروہ ہے جنہوں نے مختلف وقتوں میں لوگوں کو حق کا پیغام دیا۔ قیامت میں جب لوگوں کا حساب ہوگا اور ہر ایک کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے اور داعیٔ حق کی بات جو وہ دنیا میں کہتا تھا،اس کی سچائی آخری طور پر صحیح ثابت ہوچکی ہوگی اس وقت ہر داعی اپنی قوم کو خطاب کرے گا۔ خدا کے حکم سے آخرت میں ان کے لیے خصوصی اسٹیج مہیا کیا جائے گا، جس پر کھڑے ہو کر پہلےوہ اپنے ماننے والوں کو خطاب کریں گے۔ یہ لوگ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے، مگر وہ اس کے امید وار ہوں گے۔ اس کے بعد ان داعیانِ حق کا رخ دعوتِ حق جھٹلانے والوں کی طرف کیا جائے گا۔ وہ ان کی بری حالت دیکھ کر کمال عبدیت کی وجہ سے کہہ اٹھیں گے کہ خدایا ہمیں ان ظالموں میں شامل نہ کر۔ وہ گروہ منکرین کے لیڈروں کو ان کے چہرہ کی ہیئت سے پہچان لیں گے، اور ان سے کہیں گے کہ تم کو اپنے جس جتھے اور اپنے جس سازوسامان پربھروسہ تھا، اور جس کی وجہ سے تم نے پیغام حق کو جھٹلا دیا، وہ آج تمہارے کچھ کام نہ آسکا۔
" وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے مگر وہ امید وار ہوں گے۔ـ" اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرے صالحین پہلے جنت میں چلے جائیں گے، اور اصحابِ اعراف بعد کو جائیں گے۔ یہ تقدیم و تاخیر کی بات نہیں ہے، بلکہ آخرت کے اعتبار سے لوگوں کے انجام کی بات ہے۔ جو لوگ دعوت کا کام کریں گے، ان کا معاملہ سادہ معاملہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ دنیا کے مفادات سے محرومی کی بنیاد پر انجام پائے گا۔ یہ وہ لوگ ہوں گے، جو دعوت یا شہادت کی قیمت ادا کرکے دعوت کا اور شہادت کا کام انجام دیں گے، اور پھر آخرت میں اس کا انعام پائیں گے۔