انتخابِ ڈائری 1985
26 جنوری 1985
لارڈ میو نے اپنا ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ ایک بار ایک جزیرے میں تھے۔ وہاں انھیں غروب آفتاب کا منظر دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ منظر اتنا حسین تھا کہ میں نے چاہا کہ اس کو ہمیشہ دیکھتا رہوں:
I wish I could see this sunset forever.
نیچر بے حد حسین ہے۔ اس کو دیکھنے سے کبھی آدمی کا جی نہیں بھرتا۔ آدمی چاہتا ہے کہ نیچر کو مستقل طور پر دیکھتا رہے۔ مگر زندگی کے تقاضے اس کو مجبور کرتے ہیں، اور اس سے سیر ہوئے بغیر وہ اس کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
نیچر (nature)موجودہ دنیا میں جنت کی نمائندہ ہے۔ وہ آخرت کی جنت کی ایک جھلک ہے۔ جنت میں جو لطافت، جو حسن، جو بے پناہ کشش ہوگی، اس کا ایک دور کا مشاہدہ موجودہ دنیا میں نیچر کی صورت میں ہوتا ہے۔ نیچر ہم کو جنت کی یاد دلاتی ہے۔ وہ ہم کو بتاتی ہے کہ دنیا میں جنت والے عمل کرو تاکہ آخرت میں خدا کی جنت کو پاسکو۔ دنیا میں آدمی جنت کی جھلک سے بھی پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ مگر آخرت کی کامل دنیا میں آدمی کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ جنت سے آخری حد تک لطف اندوز ہوسکے۔
6 مئی 1985
آخرت میں خدا کی جنت کے دروازے ان لوگوں کے لیے کھولے جائیں گے، جو دنیا میں اپنے دل کے دروازے خدا کی نصیحت کے لیے کھولیں۔
جنت اور جہنم کا فیصلہ دراصل دل کی دنیا میں ہوتا ہے۔ خدا اپنے کسی بندے کے ذریعہ آدمی کے دل کے دروازہ پر دستک دیتا ہے۔ وہ کسی بندۂ خاص کے ذریعے اس کے پاس اپنا پیغام بھیجتا ہے۔ یہ لمحہ کسی انسان کی زندگی میں نازک ترین لمحہ ہوتا ہے۔ اگر وہ اس وقت اپنے دل کے دروازے کھول دے تو گویا کہ اس نے اپنی جنت کا دروازہ کھول لیا۔ اگر وہ اس وقت اپنے دل کے دروازے بند رکھے تو گویا اس نے اپنے اوپر جنت کے دروازے کو بند کرلیا— اس دنیا میں حق کو قبول کرنا یا حق کا انکار کرنا ہی وہ خاص لمحہ ہے جب کہ آدمی کے لیے ابدی جنت یا ابدی جہنم کا فیصلہ ہوتا ہے۔
23 مئی 1985
غالباً 1970 میں مجھے تاج محل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ تاج محل کو دیکھنے سے پہلے تاج محل کے بارے میں بہت سے مضامین پڑھے تھے۔ ان مضامین میں تاج محل مجھے بہت عظیم محسوس ہوتا تھا۔ مگر جب میں نے تاج محل کو دیکھا تو وہ اس سے بہت کم تھا جو میں اپنے ذہن میں سمجھ رکھا تھا۔
یہی حال تمام انسانی مصنوعات کا ہے۔ انسانی ساخت کی کسی چیز کے بارے میں اسے دیکھنے سے پہلے جو میری رائے تھی وہ اس کو دیکھنے کے بعد باقی نہ رہی۔ ہر انسانی چیز دیکھتے ہی اس سے کم نظر آئی جو دیکھنے سے پہلے محسوس ہوتی تھی۔مگر فطرت کے مناظر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ کوئی فطری واقعہ اس سے بہت زیادہ عظیم ہے جو دیکھنے سے پہلے سن کر یا پڑھ کر میں سمجھ رہا تھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ فطرت کا ہر واقعہ اتھاہ حد تک عظیم اور حسین ہے، انسانی الفاظ اس کو پوری طرح بیان نہیں کرپاتے۔ یہاں ہر بولا ہوا لفظ اصل حقیقت سے بہت کم ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت دیکھنے میں اس سے زیادہ نظر آتی ہے جتنا کہ وہ پڑھنے یا سننے میں محسوس ہو رہی تھی۔
19 ستمبر 1985
موجودہ زمانے کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان کے دماغ (brain) میں جو پارٹیکل ہیں وہ پوری کائنات کے مجموعی پارٹیکل سے بھی زیادہ ہیں۔ انسانی دماغ کی استعداد بے پناہ ہے مگر کوئی بڑے سے بڑا انسان بھی اب تک اپنے دماغ کو دس فی صد سے زیادہ ا ستعمال نہ کرسکا۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی ایک امکان ہے۔ مگر موجودہ دنیا اپنی محدودیتوں کے ساتھ اس امکان کے ظہور کے لیے ناکافی ہے۔ انسانی امکان کے ظہور میں آنے کے یے ایک لامحدود اور وسیع تر دنیا درکار ہے— جنت کی دنیا، ایک اعتبار سے، اسی لیے بنائی گئی ہے کہ وہاں آدمی کے امکانات پوری طرح ظہور میں آسکیں۔
14 اکتوبر 1985
جنت کے بارے میں قرآن میں ’’عندکَ‘‘ (تمھارے پاس) اور ’’عند ربّہم‘‘ (ان کے رب کے پاس)کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ جنت مجلسِ خداوندی میں جگہ پانے کا دوسرا نام ہے۔ خدا کی صفت خاص یہ ہے کہ وہ پرفکٹ (perfect) ہے۔ خدا کے قریب جو دنیا ہوگی وہاں ہر چیز پرفکٹ ہوگی۔ وہاں پرفکٹ باتیں ہوں گی۔ پرفکٹ سلوک ہوگا۔ پرفکٹ سامان ہوں گے۔یہ ایک پرفکٹ ماحول ہوگا، اور پرفکٹ ماحول میں جینے ہی کا نام جنت ہے۔
یہ پرفکٹ دنیا اتنی زیادہ قیمتی ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل، خواہ وہ کتنی ہی مقدار میں ہو، اس کی قیمت نہیں بن سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو اپنے عمل کی قیمت پر جنت میں جگہ نہیں مل سکتی۔ تاہم ایک چیز ہے جو جنت کی قیمت ہے۔ اوروہ ہے پرفکٹ تھنکنگ۔ آدمی عمل کی سطح پر پرفکٹ نہیں بن سکتا۔ مگر سوچ (تھنکنگ) کی سطح پر وہ پرفکٹ بن سکتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو موجودہ دنیا میں آدمی کو حاصل کرنا ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو جنت میں داخلے کا مستحق بنائے گی۔
19 اکتوبر 1985
جنت صبر کے اُس پار ہے، مگر اکثر لوگ جنت کو صبر کے اِس پار تلاش کرنے لگتے ہیں۔
6 نومبر 1985
قرآن میں اہل جنت کے بارہ میں آیا ہے کہ وہ با اقتدار بادشاہ کے پاس سچی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ہوں گے ( فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُقْتَدِرٍ )54:55۔
موجودہ دنیا میں آدمی جھوٹی نشستوں پر بیٹھا ہوا ہے۔ آخرت میں آدمی سچی نشستوں پر بٹھایا جائے گا۔ ہر آدمی فریب اور استحصال کے ذریعہ اونچی جگہ پائے ہوئے ہے۔ یہاں ہم کو ایسے لوگوں کے درمیان زندگی گزارنا پڑتا ہے، جو اپنے آپ کو اس کا پابند نہیں سمجھتے کہ وہ اپنے اختیار کو صرف عدل کے دا ئرے میں استعمال کریں۔
آخرت کا معاملہ اس سے مختلف ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کا کامل اختیار حاصل ہے۔ مگر اس نے اپنے آپ کو اس کا پابند بنا رکھا ہے کہ وہ عدل اور رحمت کے دائرہ ہی میں اپنے اعلیٰ اختیارات کو استعمال کرے ( کَتَبَ عَلَى نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ [6:12]) اسی کے ساتھ وہ ایک ایسی ہستی ہے، جو اعلیٰ ترین معیاری ذوق رکھتا ہے۔ وہ پرفکٹ سے کم پر کبھی راضی نہیں ہوتا۔ ایسے شہنشاہ کے پڑوس میں جگہ پانا کس قدر پر مسرت اور لذیذ ہوگا اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
22 نومبر 1985
قرآن میں اہلِ جنت کی صفات میں سے ایک صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ اس دن کی مصیبت سے ڈرتے ہیں جو ہر طرف پھیل پڑے گی۔ وہ اللہ کی محبت میں محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلاتے ہیں۔ (اور یہ کہتے ہیں ) کہ ہم جو تم کو کھلاتے ہیں تو صرف اللہ کی خوشی چاہنے کے لیے کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے نہ بدلا چاہتے ہیں، اور نہ شکر گزاری۔ ہم اپنے رب سے ایک ایسے دن کے بارے میں ڈرتے ہیں جو بڑی اداسی والا اور سختی والا ہوگا(76:7-10)۔ان آیات کو پڑھ کر ایک صاحب نے کہا کہ ایسے موقع پر یہ الفاظ عربی میں کہنا چاہیے یا اس کو اپنی زبان میں بھی کہا جاسکتا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ اس آیت کا مطلب نہیں سمجھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب کسی حاجت مند کی مدد کی جائے تو اس وقت زبان سے یہ الفاظ دہرائے جاتے رہیں۔ اس سے مراد الفاظ نہیں بلکہ احساسات ہیں۔ یعنی جب کسی کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے تو آدمی کے دل میں یہ احساس طاری ہونا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ان الفاظ کو یاد کرلے اور ہر ایسے موقع پر ان الفاظ کو دہرادیا کرے۔ کبھی زبان سے کچھ الفاظ بھی نکل پڑتے ہیں مگر اصلاً یہاں جس چیز کا ذکر ہے وہ احساسات ہی ہیں۔
19 دسمبر1985
قرآن میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت کو لکھ رکھا ہے ( کَتَبَ عَلَى نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ [6:12])۔موجودہ دنیا میں انسان کے پاس اقتدار ہے۔ مگر اس نے اپنے آپ کو رحمت اور عدل کا پابند نہیں کیا ہے، اس لیے موجودہ دنیا فساد اور خرابیوں سے بھر گئی ہے۔مگر آخرت میں سارا اقتدار صرف ایک اللہ کے پاس ہوگا، اور اللہ نے ہر قسم کا مطلق اختیار رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو رحمت اور عدل کا پابند کر رکھا ہے۔ اس لیے آخرت کی دنیا سراپا خیر ہوگی۔ وہاں صرف وہی ہوگا جو از روئے حق ہونا چاہیے، اور وہ نہ ہوسکے گا جو از روئے حق نہیں ہونا چاہیے— آخرت کی یہ خصوصیت آخرت کو ایک معیاری دنیا بنا دے گی۔ اسی معیاری دنیا کا دوسرا نام جنت ہے۔
24 مئی 1985
بہت سی باتیں اس وقت سمجھ میں آتی ہیں جب کہ آدمی کا دل زندہ ہو اور اس کا شعور بیدار ہو۔ مسلمان موجودہ زمانے میں ایک ایسی قوم بن گئے ہیں، جو دل ودماغ کی زندگی سے محروم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان بہت سی باتوں کو سمجھ نہیں پاتے اور بدقسمتی سے جن باتوں کو وہ نہیں سمجھتے وہی وہ باتیں ہیں جو زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
مثلاً کبھی نہ کرنے کا نام کرنا ہوتا ہے۔ کبھی بولنا اس کا نام ہوتا ہے کہ آدمی چپ رہے۔ یہ بلاشبہ زندگی کی سب سے زیادہ گہری حقیقت ہے مگر وہ ایک ایسی چیز ہے جس کے لیے بہت زیادہ گہری شخصیت درکار ہے۔
آدمی ایک ایسی مخلوق ہے جو لازماً مشغول رہنا چاہتا ہے۔وہ عین اپنی فطرت کے تحت ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہے۔ اس لیے نہ کرنے پر وہی شخص راضی ہوسکتا ہے جس کے پاس نہ کرنے کے وقت بھی کچھ کرنے کے لیے ہو۔ وہی انسان چپ رہ سکتا ہے جو خاموشی کے وقت بھی اپنے پاس بولنے کا سامان رکھتا ہو۔
الرسالہ میں یہ باتیں کہی جاتی ہیں تو موجودہ مسلمان کو وہ معمہ معلوم ہوتی ہیں۔ اگر یہ مسلمان اندر سے خالی نہ ہوتے بلکہ ان کے اندر کا وجود خدا کی یافت سے ایک زندہ وجود بن چکا ہوتا تو انھیں یہ بات معمہ نہ معلوم ہوتی۔
اس وقت وہ جان لیتے کہ آدمی جب چپ ہوتا ہے تو وہ اپنے خدا سے سرگوشیاں کرنے لگتا ہے۔ باہر کی دنیا میں جب بظاہر اس کے قدم رک جاتے ہیں تو وہ اپنے اندر ہی اندر مارچ کرنے لگتا ہے۔ خارجی تدبیروں سے جب وہ منقطع ہوجاتا ہے تو اس کا رشتہ قوت کے اس لازوال سرچشمے سے جڑ جاتا ہے جو کسی واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے خارجی تدبیروں کا محتاج نہیں۔
1 جون 1985
انسان کی اعلیٰ ترین تعریف میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ دلیل کے آگے جھک جائے، وہ طاقت کے بغیر محض دلیل کی بنیاد پر امر واقعہ کا اعتراف کرلے۔
مگر میری زندگی کا سب سے زیادہ تلخ تجربہ یہ ہے کہ آدمی دلیل کے آگے نہیں جھکتا۔ وہ صرف طاقت کے زور کو جانتا ہے، وہ دلیل کے زور کو نہیں جانتا۔
موجودہ دنیا میں آدمی دلیل کا انکار کرکے خوش ہوجاتا ہے اور طاقت کا اعتراف کرکے اپنے کو عقل مند سمجھتا ہے۔ مگر یہ کسی انسان کا وہ سب سے بڑا جرم ہے جو سب سے زیادہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والا ہے۔
جو لوگ موجودہ دنیا میں دلیل کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے آپ کو اس خطرے میں مبتلا کرتے ہیں کہ آخرت کی دنیا میں انھیں فرشتوں کی طاقت کے آگے جھکایا جائے۔ مگر اُس دن کا جھکنا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ دلیل کے آگے جھکنا آدمی کے لیے جنت کا دروازہ کھولتا ہے۔ جب کہ طاقت کہ آگے جھکنا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ آدمی کو مجبور کرکے جہنم کے گڑھے میں دھکیل دیا جائے۔
دلیل کے آگے جھکنا خدا کے آگے جھکنا ہے۔ جو لوگ دلیل کے آگے نہ جھکیں وہ گویا خدا کے آگے سرکشی کررہے ہیں۔ جو لوگ خدا کے آگے سرکشی کریں اور پھر اسی حال میں مر جائیں ان کو خدا کبھی معاف نہیں کرے گا۔
12 جون 1985
تقسیم ہند (1947) کے وقت لاہور کی کل آبادی گیارہ لاکھ تھی۔ اس میں پانچ لاکھ مسلمان تھے اور پانچ لاکھ سکھ۔ اور ایک لاکھ ہندو تھے۔ پاکستان بننے کے بعد وہاں کے مسلمانوں نے لاہور کو سکھوں اور ہندوؤں سے خالی کرالیا۔ موجودہ لاہور تمام تر مسلمانوں کا شہر ہے۔
اسی طرح دہلی میں مسلمان تقسیم سے پہلے چھائے ہوئے تھے۔ مگر 1947 کے ہنگامہ میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو دہلی چھوڑ کر پاکستان جانا پڑا۔ تاہم اب بھی دہلی میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔1947 میں دہلی کی آبادی تقریبا اتنی ہی تھی جتنی اس وقت لاہور کی تھی۔ مگر آزادی کے بعد اس کی آبادی تیزی سے بڑھنا شروع ہوئی۔ 1951 میں دہلی کی آبادی 17 لاکھ ہوگئی۔ 1985 میں دہلی کی آبادی 77 لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 10 فی صد ہے۔
دہلی میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر مسلمان شکایتیں کرتے ہیں۔ مگر یہی معاملہ اس سے زیادہ بڑے پیمانہ پر خود مسلمانوں نے ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ کیا، اس کو وہ بالکل نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔
یہ دہرا طریقہ سراسر باطل ہے۔ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ حدیث میں اہلِ جنت کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دوسروں کے بارے میں وہی فیصلہ کیا جو فیصلہ ان کا خود اپنے بارے میں تھا (وَحَکَمُوا لِلنَّاسِ کَحُکْمِہِمْ لِأَنْفُسِہِمْ)مسند احمد، حدیث نمبر 24379۔ پھر مذکورہ طرزِ عمل کے بعد وہ کیسے امید کرتے ہیں کہ آخرت میں وہ اللہ کے محبوب بندے قرار دیے جائیں گے۔
19 جون 1985
ہر دو آدمی کے درمیان ان کا خدا کھڑا ہوا ہے۔ خدا ہر وقت ہر آدمی کی بات سن رہا ہے تاکہ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان انصاف کرے۔
اگر آدمی کو اس واقعے کا احساس ہو تو اس کا وہی حال ہوگا جو ایک آدمی کا عدالت میں ہوتا ہے۔ عدالت میں ہر آدمی بالکل ناپ تول کر بولتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اگر کوئی بات خلاف قاعدہ منھ سے نکل گئی تو وہ فوراً عدالت کی پکڑ میں آجائے گا۔ اسی طرح اللہ پر عقیدہ رکھنے والا جو کچھ بولتا ہے اس احساس کے تحت بولتا ہے کہ خدا اس کو سن رہا ہے۔ یہ احساس اس کو مجبور کردیتا ہے کہ وہ کوئی غلط بات اپنے منھ سے نہ نکالے۔
انسان سے اگر غلطی ہوجائے اور وہ فوراً اس کا اعتراف کرلے توگویا کہ اس نے خدا کے سامنے اعتراف کیا۔ اور اگر وہ غلطی کا اعتراف نہ کرے تو گویا کہ اس نے خدا کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ سارا معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ لوگ معاملات کو انسان کا معاملہ سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ سرکشی اور بے انصافی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ غلطی کرکے بھی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے۔
میرا مزاج یہ ہے کہ اگر میں کوئی خلافِ حق بات کہہ دوں اور اس کے بعد مجھے معلوم ہو کہ یہ بات حق کے خلاف تھی تو میں اس کو افورڈ (afford )نہیں کرسکتا کہ میں اس کا اعتراف نہ کروں۔ میں حق کے آگے جھک نہ جاؤں۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو مجھے ایسا محسوس ہوا ہے کہ خدا خود ظاہر ہو کر میرے سامنے آیا اور کہا کہ میرے سامنے جھک جا اس کے باوجود میں خدا کے سامنے نہیں جھکا۔
حق کے سامنے نہ جھکنا ایسا ہی ہے جیسے کسی کے سامنے خدا آیا ا ور وہ اس کے سامنے نہیں جھکا۔
9 ستمبر 1985
رچرڈ کشنگ (Richard Cardinal Cushing) کا قول ہے کہ مذہبی شخصیتوں کے ساتھ جنت میں رہنا بہت عظیم ہے، مگر ان کے ساتھ زمین پر رہنا ایک مصیبت ہے:
It is great to live with saints in heaven, but it is hell to live with them on earth.
یہ در اصل مذہبی شخصیتوں پر طنز ہے۔ مذہبی لوگ وعظ کہتے ہیں کہ ہمارے بتائے ہوئے راستے پر چلو تو تم کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ مگر خود ان مذہبی شخصیتوں کا کردار اکثر نہایت برا ہوتا ہے۔ گویا کہ دنیا میں ان کے ساتھ رہنا جہنم میں رہناہے۔ جب کہ ان کے قول کے مطابق ان کے طریقے پر چلنا اگلی زندگی میں جنت میں داخل ہونا ہے— مذہبی شخصیتوں کے قول و عمل کا یہ تضاد اکثر مذاہب میں پایا جاتا ہے۔
17 اکتوبر 1985
حدیث میں آیا ہے:الدُّنْیَا سِجْنُ المُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الکَافِرِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2956)۔ یعنی دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن خدا کے پڑوس میں رہناچاہتا ہے اور دنیامیں اس کو انسانوں کے پڑوس میں رہنا پڑتا ہے۔ اس کی نظروں میں ’’پرفکٹ‘‘ سمایا ہوا ہوتاہے اور دنیا میں اس کو ’’امپرفکٹ‘‘ سے نباہ کرناپڑتا ہے۔وہ کامل سچائی کا طلب گار ہوتا ہے اور دنیا میں وہ دیکھتا ہے کہ جھوٹ اور ناانصافی اور دھاندلی کی حکمرانی ہے۔ وہ اصول پسند ہوتا ہے جب کہ دنیا میں اس کو ہر طرف بے اصولی کا راج دکھائی دیتا ہے۔
غیر مومن با اصول یا آئیڈیلسٹ نہیں ہوتا۔ اس کے سامنے صرف اپنا ذاتی مفاد ہوتا ہے، خواہ وہ جس طرح بھی ملے۔ وہ ہر صورتِ حال میں ڈھل کر اپنا مفاد محفوظ کرلیتا ہے۔ وہ صحیح اور غلط کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتا اسی لیے اسے کوئی پریشانی بھی لاحق نہیں ہوتی۔
13 نومبر 1985
شیطان کی شیطانی سے بچنا ممکن ہے، مگر انسان کی شیطانی سے بچنا ممکن نہیں۔ کیوں شیطان صرف بہکاتا ہے مگر انسان عملی طور پر آپ کے اوپر حملہ آور ہوتا ہے۔ شیطان صوتی کثافت (noise pollution) پیدا نہیں کرتا، جب کہ انسان لاؤڈاسپیکر لگا کر شور کرتا ہے، اور آپ کے سکون کو درہم برہم کردیتا ہے۔ شیطان آپ کے اثاثہ پر قبضہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، جب کہ انسان آپ کے اثاثہ پر ناجائز قبضہ کرتا ہے، اور آپ کو جھگڑے اور مقدمات میں الجھا کر آپ کے سارے تعمیری منصوبہ کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ ابلیس ’’بے سلطان‘‘شیطان ہے۔ مگر انسان وہ شیطان ہے جس کو وقتی طورپر سلطان بھی دے دیا گیاہے۔
آخرت میں اگر کوئی جہنم کا سب سے برا درجہ ہے تو وہ یقینا انسان کے لیے ہوگا نہ کہ شیطان کے لیے۔ انسان کا جرم شیطان سے بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے اس لیے انسان کی جہنم بھی شیطان کے مقابلہ میں زیادہ ہولناک ہونی چاہیے۔ شاید اسی لیے قرآن میں آیا ہے: إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (4:145)۔ یعنی بیشک منافقین دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقے میں ہوں گے۔
14 نومبر 1985
دنیا میں آدمی کو بہت سی چیزیں حاصل ہیں — اس کا اپنا وجود، اس کا گھر اور جائداد، اس کے دوست اور راشتہ دار، اور دوسرے اسباب اور سامان۔
یہ جو کچھ انسان کو موجودہ دنیا میں حاصل ہے، ان کے بارے میں دو نقطۂ نظر ہوسکتا ہے— ایک یہ کہ یہ سب چیزیں ہماری ہیں، ہم ان کے مالک ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہم ان میں سے کسی چیز کے خود مالک نہیں۔ ہر چیز خدا کی ہے۔ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ سامانِ امتحان کے طورپر ہے نہ کہ سامانِ ملکیت کے طورپر۔
پہلا ذہن ناشکری کا ذہن ہے اور دوسرا ذہن شکر گزاری کا ذہن۔ پہلے ذہن کے تحت جو زندگی بنتی ہے اس کا نام کفر ہے اور دوسرے ذہن کے تحت جو زندگی بنتی ہے اس کا نام اسلام ہے۔ پہلے ذہن کے تحت زندگی گزارنے والے کے لیے جہنم ہے اور دوسرے ذہن کے تحت زندگی گزارنے والے کے لیے جنت۔