اہلِ جنت

جنت رب العالمین کا پڑوس ہے (التحریم،66:11)۔جنت ان لوگوں کے لیے ہے، جو دنیا میں خداوند رب العالمین کی یاد میں جینے والے ہوں، وہی لوگ ابدی جنت میں بسائے جائیں گے۔جہاں ان کو خداوندِ رب العالمین کی قربت حاصل ہوگی۔ جو لوگ منفی سوچ (negative thinking) میں جینے والے ہوں، وہ دنیا میں بھی خداوند رب العالمین کی قربت سے محروم رہیں گے، اور آخرت میں بھی۔

موجودہ دنیا تربیت گاہ ہے، اور آخرت کی دنیا تربیت یافتہ لوگوں کا مقام۔ جنت میں صرف منتخب افراد رہائش کا درجہ پائیں گے۔ وہ لوگ جو دنیا کی زندگی میں اپنے آپ کو اس قابل ثابت کریں کہ وہ منظم زندگی گزارنا جانتے ہیں۔ جن کے اندر قابلِ پیشین گوئی کردار موجود ہے۔ جنت میں ان لوگوں کو داخلہ ملے گا، جو اپنے عمل سے یہ ثابت کریں کہ ان کے اندر تخلیقی (creative)صلاحیت موجود ہے۔ جو یہ ثابت کریں کہ وہ آزادی کے باوجود ذمے دارانہ زندگی (disciplined life) گزارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنت ان لوگوں کے لیے ہے، جو پورے معنی میں باشعور ہوں۔ جو پورے معنیٰ میں بے مسئلہ انسان ہوں۔ جو اپنے اندر سیلف کنٹرول (self-control) کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ وہ منظم اخلاقیات سے متصف ہوں، وغیرہ۔

اسی طرح جنت کے بارے میں قرآن میں آیا ہے:حَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت حسنِ رفاقت (excellent companionship) کی دنیا ہے۔ دنیا میں اسی کا امتحان ہورہا ہے۔ یہاں یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ کون شخص ہے، جو اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں اس کے اندر سیلف ڈسپلن کی صفت اعلی درجے میں پائی جاتی ہے، جو کسی کے دباؤ کے بغیر دوسروں کے لیے بہترین ہمسایہ بن کر رہنے والا ہے۔ جس آدمی کے اندر حسن رفاقت کی صفت ہو، جو کسی دباؤ کے بغیر سیلف ڈسپلن کے ساتھ ہر حال میں رہ سکتا ہے، ایسے ہی لوگ ہیں، جو جنت میں داخلے کے لیے منتخب کیے جائیں گے۔

اسی طرح قرآن میں بتایا گیاہے کہ اہل جنت کے لیے جنت کا رزق ایک معلوم رزق ہوگا۔ یعنی جنت ان کے لیے ایک ایسی چیز ہوگی، جس کی دریافت ان کو دنیا میں ہوچکی تھی۔ اس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَہَا لَہُمْ ( 47:6)۔ یعنی اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جس کی اس نے انھیں پہچان کرا دی ہے۔ گویا کہ موجودہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جو جنت کے متشابہ دنیا (similar world)کی حیثیت رکھتی ہے، جیسا کہ قرآن میں ایک دوسرے مقام پر یہ الفاظ آئے ہیں: کُلَّمَا رُزِقُوا مِنْہَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا ہَذَا الَّذِی رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِہِ مُتَشَابِہًا( 2:25)۔یعنی جب بھی ان کو ان باغوں میں سے کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیں گے یہ وہی ہے جو اس سے پہلے ہم کو دیا گیا تھا، اور ملے گا ان کو ایک دوسرے سے ملتا جلتا۔

دوسری طرف حدیث میں آیا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:حُجِبَتِ الجَنَّةُ بِالْمَکَارِہِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6487)۔ یعنی جنت کو مکارہ سے ڈھانک دیا گیا ہے۔ مکارہ کا مطلب ناپسندیدہ (undesirable) ہے۔ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت ایک ایسی چیز ہے، جس کا تعارفی ماڈل اسی دنیا میں موجود ہے، لیکن وہ مکارہ سے ڈھکا ہوا ہے۔ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذہنی اعتبار سے اتنا زیادہ ارتقا یافتہ بنائے کہ وہ مکارہ کے پردے کو ہٹا کر پیشگی طور پر جنت کو دریافت کرسکے۔

یہ صلاحیت کسی فرد کے اندر کیسے پیدا ہوتی ہے۔ وہ اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ آدمی کے اندر موت و حیات کے منصوبے پر گہرا یقین ہو، وہ گہرے یقین کے ساتھ یہ جانے کہ موجودہ دنیامیں ہر لمحہ فرشتوں کے ذریعے اس کا ریکارڈ تیار ہورہا ہے۔ جو مرد یا عورت جنتی اخلاقیات کے معیار پر پورے اتریں، صرف وہ جنت میں داخلہ پائیں گے، اور جو لوگ اس معیار پر پورے نہ اتریں، وہ کائنات کے کوڑے خانے میں پھینک دیے جائیں گے۔ جہاں وہ ابدی طور پر اس حسرت میں تڑپتے رہیں کہ ان کو ایک ہی موقع ملا تھا، اس موقع کو انھوں نے اپنی نادانی سے کھودیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom