جنت کس کے لیے
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنت کس کے لیےہے۔جنت کا مطلب ہے ابدی عیش (eternal pleasure)کی زندگی۔ یہ ایک بے حد انوکھا تصور ہے۔ میں بہت دنوں سے یہ سوچتا تھا کہ آخر ابدیت کی یہ نعمت کس کو دی جائے گی۔ آخر کار میں نے ایک واقعہ سنا۔ اس سے میری سمجھ میں آیا کہ ابدی جنت کا استحقاق کس کے لیے ہوگا۔
دلی میں ایک تاجر ہیں، جو اب بوڑھے ہوچکے ہیں۔ انھوں نے بزنس میں کافی دولت کمائی۔ مگر ان کا کوئی وارث نہیں تھا، جس کو وہ اپنی دولت دیں۔ آخر کار انھوں نے ایک انوکھا واقعہ کیا۔ ان کا ایک ملازم تھا، جو ساری عمر ان کی خدمت کرتا رہا۔ وہ بے حد وفادار تھا۔ زندگی کے ہر تجربے سے معلوم ہوا کہ وہ ملازم آخری حد تک دل و جان سے ان کا وفادار (loyal) ہے۔ مذکورہ تاجر نے یہ کیا کہ اپنی ساری دولت اس ملازم کو دے دی، اور بڑھاپے کی عمر میں خود بھی جاکر اسی کے گھر میں اس کے ساتھ رہنے لگا۔ اب یہ حال ہے کہ اس کی پوری فیملی دل و جان سے اس تاجر کی خدمت گزاری کررہی ہے۔ اس قصے کو بتاتے ہوئے اس تاجر نے کہا کہ یہ آدمی میرا اتنا زیادہ وفادار ہے کہ ویسا کوئی اپنا بیٹا بھی نہیں ہوسکتا۔ وہ بچپن کی عمر سے میرے ساتھ ہے، اور کبھی اس کی وفاداری میں مجھے شک نہیں ہوا۔ اب جب کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں، یہ آدمی دل و جان سے میری وفاداری کا حق ادا کررہا ہے۔ اس لیے میں نے اپنا سب کچھ اس آدمی کو دے دیا۔ اب میں اتنا زیادہ خوش ہوں کہ شاید ہی کوئی آدمی اتنا زیادہ خوشی کی زندگی گزارتا ہو۔ تادمِ تحریر (31 جنوری 2019) دونوں زندہ ہیں۔ مذکورہ تاجر پہلے دلی کے نظام الدین ویسٹ ;کے علاقے میں رہتے تھے، اور اب دونوں آگرہ کے مضافات (suburb)میں ایک گھر میں ایک ساتھ رہتے ہیں۔
اس واقعے کو جاننے کے بعد مجھے ایک حدیث یاد آئی:خَلَقَ اللَّہُ آدَمَ عَلَى صُورَتِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227)۔ یعنی اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اس حدیث کو لے کر میں نے سوچا تو میری سمجھ میں آیا کہ اس کا مطلب شاید یہ ہے کہ انسان کا مطالعہ کرکے کوئی شخص اللہ کو دریافت کرسکتا ہے۔ اللہ کو شاید سب سے زیادہ جو چیز پسند ہے، وہ یہ ہے کہ اس کا کوئی بندہ ایسا ہو، جو دل و جان سے اس کا وفادار(loyal)ہو۔ کسی بندے کے بارے میں اگر ثابت ہوجائے کہ وہ آخری حد تک اللہ کا کامل وفادار ہے، تو ایسا بندہ اللہ کو اتنا زیادہ محبوب بن جاتاہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ وہ ایسے بندے کو سب کچھ دے دے، حتی کہ ابدی جنت (eternal paradise) بھی۔
کامل وفاداری کسی انسان کی سب سے بڑی صفت (quality) ہے۔ جو آدمی حقیقی معنیٰ (real sense) میں اپنے بارے میں یہ ثابت کردے کہ وہ اپنے رب کا کامل وفادار ہے، وہ دل و جان سے پورے معنیٰ میں اللہ والا انسان ہے۔ یہی وہ کامل وفاداربندہ ہے، جس کے انجام کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُقْتَدِرٍ (54:55)۔یعنی وہ بیٹھے ہوں گے سچی بیٹھک میں، قدرت والے بادشاہ کے پاس۔
جنت، خدا کا پڑوس
فرعون کی بیوی آسیہ ایمان لائی تو فرعون غصہ ہوگیا۔اس نے کہا کہ میں تم کو مارڈالوں گا، تم کیوں موسى پر ایمان لائیں۔اس وقت اس خاتون نے کہا تم جو چاہے کرو اب میں تو ایمان لاچکی ہوں۔ قرآن میں ہے کہ اس وقت آسیہ نے ایک دعا کی تھی۔ اس دعا کے الفاظ یہ ہیں: رَبِّ ابْنِ لِی عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ(66:11)۔ یعنی اے میرے رب، میرے لیے اپنے پاس، جنت میں ایک گھر بنادے۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید سے جنت جڑی ہوئی ہے،اور یہ کہ جنت خدا کے پڑوس کا نام ہے۔
خدا رخی زندگی
خدا رخی زندگی یہ ہے کہ آدمی اللہ رب العالمین کو اس طرح دریافت کرے کہ وہ اس کی زندگی میں شامل ہوجائے۔ وہ خدا کی یاد کے ساتھ سوئے، اور خدا کی یاد کے ساتھ جاگے۔ وہ خدا کی دنیا میں خداوالا بن کر رہے۔ دنیا کی ہر چیز اس کو خدا کی یاد دلانے والی بن جائے۔