پر امید آیات و احادیث
امام سیوطی (وفات 911ھ) نے لکھا ہے کہ قرآن کی پر امید آیتوں کی تعداد دس سے کچھ زیادہ ہے (الاتقان فی علوم القرآن، 4/149)۔ان میں سے ایک آیت یہ ہے:قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
اسی طرح احادیث میں بھی اس قسم کے پرامید اقوال آئے ہیں۔ ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لَمَّا خَلَقَ اللہُ الْخَلْقَ، کَتَبَ کِتَابًا، فَہُوَ عِنْدَہُ فَوْقَ الْعَرْشِ:إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی (مسند احمد، حدیث نمبر 7528)، و فی روایۃ: إِنَّ رَحْمَتِی غَلَبَتْ غَضَبِی(مسند احمد، حدیث نمبر8127)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب اس کے پاس عرش کے اوپر ہے: بیشک میری رحمت میرے غضب سے آگے ہے۔ ایک اور روایت میں ہے: بیشک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔
قرآن کی مذکورہ آیت ایک بے حد پرامید آیت ہے۔ اسی طرح حدیث بھی ایک بہت پر امید حدیث ہے۔ دونوں میں جو مشترک بات ہے، وہ یہ ہے کہ اس امید کی بنیاد رحمت ہے۔ اللہ رب العالمین کی صفات میں ایک صفت اس کا رحیم و کریم ہونا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ ہمیشہ رحمت کا معاملہ فرماتا ہے۔ اللہ رب العالمین کی یہ صفت بندے کے لیے بلاشبہ سب سے زیادہ پر امید صفت ہے۔ اللہ رب العالمین کا رحیم و کریم ہونا، اس کے بندوں کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ ایسے الفاظ میں اپنے رب کو پکاریں، جو اللہ کی رحمت کو انووک کرنے والا ہو۔ اگر بندہ ایسی دعا کرے تو وہ گویا اسم اعظم کے ساتھ اپنے رب کو پکارتا ہے، اور جو آدمی اسم اعظم کے ساتھ اپنے رب کو پکارے تو اللہ رب العالمین اس کی پکار کو ضرور قبول فرماتا ہے۔