جہاد فی اللہ
جہاد کی ایک قسم وہ ہے جس کو قرآن میں جہاد فی اللہ (الحج، 22:78) کہاگیا ہے۔ یعنی اللہ میں جہاد۔ اللہ میں جہاد کیا ہے۔ اللہ میں جہاد ہے آیات اللہ(signs of God) میں غور وفکر کرنا۔تخلیق میں چھپی ہوئی حکمت (wisdom) کو دریافت کرنا۔جہاد فی اللہ کی ایک مثال قرآن میں وہ ہے، جو پیغمبر ابراہیم کے حوالے سے ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (الانعام، 6:75)۔ یعنی آسمان اور زمین کے عجائبات (wonders)۔ قرآن میں دوسرے مقام پر یہ حقیقت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: أَوَلَمْ یَنْظُرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّہُ مِنْ شَیْءٍ(7:185)۔ یعنی کیا انھوں نے آسمانوں اور زمین کے نظام پرغور نہیں کیا، اور ان چیزوں پر جواللہ نے پیدا کی ہیں۔ اللہ کے پاس عطیات کا خزانہ اتنا بڑا ہے کہ اگر وہ ہر ایک کو اس کی طلب کے مطابق دے دے تب بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
اس حقیقت کو ایک حدیث رسول میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ، مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِی إِلَّا کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْر(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2577)۔ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اگلے پچھلے، جن و انس ایک کھلے میدان میں جمع ہوجائیں، اور مجھ سے سوال کریں پھر میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کروں تو اس سے میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں ہوگی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے ہوتی ہے۔
غالباً اسی حقیقت کا ادراک (realization) پیغمبر سلیمان کی زبان سے دعا کی صورت میں ہوا تھا، جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: رَبِّ اغْفِرْ لِی وَہَبْ لِی مُلْکًا لَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِی إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ(38:35)۔یعنی اے میرے رب، مجھ کو معاف کردے اور مجھ کو ایسی سلطنت دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بیشک تو بڑا دینے والا ہے۔
سلیمان بن داؤد کو ان کی دعا کے مطابق انوکھےقسم کا سیاسی اقتدار عطا کیاگیا، جو ان کے سوا کسی اور انسان کو کبھی نہیں ملا۔ لیکن خدا کے خزانے میں عطیے کی یہی ایک انوکھی صورت نہیں ہےجو حضرت سلیمان کو عطا ہوئی۔اس کے سوا دوسری ہزاروں صورتیں ہیں، جو تاریخ میں دوسرے انسانوں کو عطا ہوئیں۔ اسی طرح عطیات کے دوسرے بہت سےمیدان ہیں جو دوسرے انسانوں کو عطا ہوئے۔ عطیات کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ آج بھی کسی انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ایک منفرد عطیۂ الٰہی کا طالب بنے، اور اللہ اس کے استحقاق کو دیکھ کر یہ منفرد عطیہ اس کو دے دے۔
عطیۂ الٰہی کیایک مثال حکمت خداوندی ہے۔ اس کائنات میں حکمت خداوندی (divine wisdom)کے بے شمار آئٹم ہیں۔ اگر کوئی انسان سچے دل سے اس کا طالب بنے کہ اس کو حکمت خداوندی کا ایک ایسا آئٹم دے دیا جائے، جو کسی اور کو نہ ملا ہو تو یقیناً اللہ اس پر قادرہے۔ اس نے جس طرح حکم کی ایک صورت سلیمان بن داؤد کو دی، جو نہ ان سے پہلے کسی کو ملی، نہ ان کے بعد۔ اسی طرح اللہ اس پر قادر ہے کہ وہ کسی طالب کو حکمت خداوندی کا ایک ایسا آئٹم دے دے، جو نہ اس سے پہلے کسی کو ملا ہو، نہ اس کے بعد کسی کو ملے۔ اور اس عطیہ کے باوجوداللہ کے خزانۂ حکمت میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔
اسلامی جہاد کا سب سے بڑا میدان تدبر ہے یعنی فکری جہاد (intellectual jihad)۔ فکری جہاد سے بڑا کوئی جہاد نہیں۔ اسی حقیقت کو ابن عباس اور ابو الدرداءنے ان الفاظ میں بیان کیاہے: تَفَکُّرُ سَاعَةٍ خَیْرٌ مِنْ قِیَامِ لَیْلَةٍ (العظمۃ لابی الشیخ الاصبہانی، اثر نمبر 42؛ حلیۃ الاولیاء، جلد 1، صفحہ208)۔ یعنی ایک ساعت کے لیے تفکر کرنا رات میں قیام (اللیل) سے بہتر ہے۔
فکری جہاد سب سے بڑاجہاد اس لیے ہے کہ وہ معرفت اور دعوت سے جڑاہوا ہے۔ فکری جہادکی ایک مثال صحابیٔ رسول ابوذر کی ہے۔ ان کے متعلق روایت میں آیا ہے کہ وہ رات دن سوچتے رہتے تھے(حلیۃ الاولیاء، جلد 1،صفحہ164)۔ یہ فکری جہاد بلا شبہ سب سے بڑا جہاد ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ فکری جہاد کا رشتہ معرفت اوردعوت الی اللہ سے جڑا ہوا ہے۔ فکری جہاد کے ذریعے جب کسی شخص کا ذہنی ارتقا (intellectual development) ہوتا ہے تو وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ آیات اللہ (signs of God) اور آلاء اللہ (Marvels of Nature) کو زیادہ سے زیادہ دریافت کریں اور اس طرح خالق کے بارے میں اپنی معرفت کو بے پناہ حد تک بڑھاتا چلا جائے۔ اسی طرح جو شخص فکری جہاد کرے، وہ اپنے داعیانہ صلاحیت میں بہت اضافہ کرے گا۔ اس کافکری مستوی (intellectual level) بہت بڑھ جائے گا۔ وہ اس قابل ہوجائے گا کہ دعوت الی اللہ کا کام اعلیٰ ترین سطح پر انجام دے سکے۔
فکری جہاد کا فائدہ دنیا سے آخرت تک چلا گیا ہے۔ اس کی ایک مثال قرآن کی پہلی آیت ہے: الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔ یہ پہلی آیت مومن کے اس درجۂ معرفت کو بتاتی ہے، جو ایک مومن فکری جہاد کے ذریعے دنیا کی زندگی میں حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت جب جنت میں داخل ہوجائیں گے تو جنت میں ان کے آخر قول کو ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے:وَآخِرُ دَعْوَاہُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (10:10)۔یعنی اور ان کی آخری بات یہ ہوگی کہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جو رب ہے سارے جہان کا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن موجودہ دنیا میں فکری جہاد اس لیے کرتا ہے کہ وہ اعلیٰ ترین سطح پر ذہنی ارتقا کا درجہ حاصل کرے۔ قرآن میں جنت کو دارالمتقین (النحل، 16:30) کہاگیا ہے۔ انسانی زبان میں اس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ جنت ایسے انسانوں کا مقام ہے، جو مجلسِ خداوندی میں کلام کرنے کے قابل ہوسکیں۔ دنیا میں فکری جہاد کا اصل مقصد یہی ہے کہ جب آخرت کی دنیا میں پہنچے تو وہاں وہ خداوندی سطح پر کلام کرنے کے قابل ہوچکا ہو۔
اسلام میں جہاد کا مطلب قتال(جنگ) نہیں ہے، بلکہ پرامن جدوجہد ہے۔ اس جدوجہد کا نشانہ کسی دوسرے کی گردن کاٹنا نہیں ہوتا بلکہ خود اپنے آپ کو اللہ کے راستے میں مشقت کے مراحل سے گزارتے ہوئے ثابت قدم رہنا۔ مشقت کے یہ مراحل آدمی کے اندر ایک نفسیاتی ہیجان پیدا کرتے ہیں۔ آدمی دردوکرب کے لمحات سے گزرتے ہوئے اللہ کو پکارتاہے۔
یہ پکار(دعا) سادہ طور پر کچھ الفاظ کو زبان سے دہرا لینا نہیں ہے، بلکہ فکر کے مراحل ہیں، یعنی جب آدمی اس قسم کے لمحات سے گزرتا ہے تو اس کی سوچ میں گہرائی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی تخلیقیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر گہری فکر (deep thinking) آجاتی ہے۔ وہ وزڈم کی اس اعلیٰ سطح پر آجاتا ہے جہاں اللہ سے اس کا گہراتعلق قائم ہوجاتا ہے۔ وہ اللہ کا ہوجاتا ہے، اور اللہ اس کا۔
جنت کی سرگرمیاں
جنت کے بارے میں قرآن میں مختلف بیانات آئے ہیں۔ ایک بیان یہ ہے: إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا۔ خَالِدِینَ فِیہَا لَا یَبْغُونَ عَنْہَا حِوَلًا۔ قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّی وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَدًا (18:107-109)۔ یعنی بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیا، ان کے لیے فردوس کے باغوں کی مہمانی ہے۔ اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ وہاں سے کبھی نکلنا نہ چاہیں گے۔ کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لیے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں۔
یہاں قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت کی زندگی اتنی خوشگوار ہوگی کہ وہ کبھی اس سے نکلنا نہ چاہیں گے۔ اس کے بعد اگلی آیت یہ ہے کہ اللہ کے کلمات اتنے زیادہ ہیں کہ کتنا ہی زیادہ ان کو لکھا جائے، وہ کبھی ختم نہ ہوں گے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں اہلِ جنت کا ایک مشغلہ یہ ہوگا کہ وہ کلمات اللہ کا مطالعہ کریں، وہ کلمات اللہ کو دریافت کریں، اور پھر کلمات اللہ کو قلم بند کریں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنت میں اہلِ جنت کی مشغولیت اسی قسم کی ہوگی، جو موجودہ دنیا میں سائنسدانوں کی ہوتی ہے۔ مشہور برطانی سائنسداں نیوٹن (1643-1727) سے اس کےعلم کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس نے کہا کہ جو ہم جانتے ہیں، وہ ایک قطرہ ہے، اور جو کچھ ہم نہیں جانتے ہیں، وہ ایک سمندر ہے:
What we know is a drop, what we don't know is an ocean.
یہی تجربہ اہلِ جنت کے ساتھ جنت میں بہت زیادہ اضافہ کے ساتھ ہوگا۔