جنت کا استحقاق

قرآن کی ایک آیت یہ ہے: جَزَاؤُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ ذَلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہُ (98:8)۔ یعنی ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی، یہ اس شخص کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرے۔

اس سورہ میں جس دو طرفہ رضامندی کی بات کہی گئی ہے، اس کا مطلب کیا ہے۔اس آیت میں اہل جنت کی کہانی اس طرح بیان کی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو اللہ سے راضی ہوگئے۔ بندے کا اللہ سے راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے تخلیقی نقشے کے مطابق، بندے کو زندگی گزارنے کا جو نمونہ ملاتھا، بندے نے دنیا میں اس کے مطابق زندگی گزاری۔ بندہ اللہ کے تخلیقی نقشے پر دل سے راضی ہوا۔ اس کے بعد اللہ بھی اس پر راضی ہوگیا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق، ایسے بندے کے لیے اپنی جنت کے دروازے کھول دے۔

انسان کے لیے جنت کوئی خریداری کا معاملہ نہیں، بلکہ وہ رضامندی کا معاملہ ہے۔یہ اللہ رب العالمین کی رحمت کا معاملہ ہے کہ وہ انسان کے لیے جنت کو رضامندی کا معاملہ قرار دیتا ہے۔اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے جنت انعام کا معاملہ ہے، لیکن انسان کا درجہ بڑھانے کے لیے اللہ نے اس کو رضامندی کا معاملہ قرار دے دیا ہے۔ یہی مطلب ہے اس دوطرفہ رضامندی کا۔

جو بندہ اللہ کے تخلیقی نقشے پر راضی ہوجائے، وہ کامل رضامندی کے ساتھ خدا کے بنائے ہوئے نقشۂ حیات پر چلنے لگے گا۔یہ طریقِ حیات صرف ان لوگوں کے لیے ممکن ہے، جو صرف اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔ اس طریقِ زندگی کو اختیار کرنے کا محرک (incentive) صرف خشیتِ رب ہے۔ جو آدمی خشیت رب سے خالی ہو، وہ ایسے طریقِ زندگی کو اختیار نہیں کرے گا۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے لیے یہی مقدر ہے کہ اس کے سفر کی آخری منزل ابدی جنت سے محرومی ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom