انسان کا انجام
انسان کو قرآن میں مکرم مخلوق (الاسراء، 17:70) کہا گیا ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے، پھر وہ بچپن اور نوجوانی اور جوانی اور بڑھاپے کے مراحل سے گزرتا ہے۔ آخر کار وہ مرجاتا ہے۔ اس دنیا میں موت ہر آدمی کا آخری مقدر ہے۔ آدمی دنیا کی زندگی میں بہت کچھ حاصل کرتا ہے۔ مگر آخری انجام ہر ایک کا صرف ایک ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:(ترجمہ) تم ہمارے پاس اکیلے اکیلے آگئے جیسا کہ ہم نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا، اور جو کچھ اسباب ہم نے تم کو دیا تھا، وہ سب کچھ تم پیچھے چھوڑ آئے(6:94)۔
اب سوال یہ ہے کہ انسان کا انجام کیا ہے۔ موت کے بعد انسان کے ساتھ کیا پیش آتا ہے۔جہاں تک میں سمجھتا ہوں، انسان کو ایک کام کرنا ہے۔ وہ یہ کہ اپنے ضمیر (conscience) کو بچا کر رکھے۔ ضمیر کے بارے میں قرآن میں آیا ہے:’’پھر اس کو سمجھ دی، اس کی بدی کی اور اس کی نیکی کی‘‘(91:8)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو حقیقت کا علم پیدائشی طور پر دیا گیا ہے۔ حقیقت کا علم اس کے اندر گہرائی کے ساتھ موجود ہے۔ یہ اتنا زیادہ طاقت ور انداز میں ہے کہ کوئی انسان اس سے انکار نہیں کرسکتا۔مگر اس سے وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے، جو اپنے ضمیر کو ہر حال میں زندہ رکھے۔ایسی حالت میں انسان کے لیے کرنے کا ایک کام یہ ہے کہ وہ اپنے ضمیر کو مردہ نہ ہونے دے، تاکہ وہ اپنے ضمیر کی طرف رجوع کرے۔
اگر انسان اپنے ضمیر کو لے کر سوچے گا، تو وہ کبھی راستے سے بھٹک نہیں سکتا۔ ضمیر اس کے لیے ایسا گائڈ بن جائے گا، جو ہر حال میں اس کومنزل تک پہنچائے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب ضمیر کسی بات پر ٹوکے، تو وہ فوراً اس کی آواز کو سنے۔ جب تک آدمی ایسا کرے گا، اس کا ضمیر زندہ رہےگا۔ اس کے برعکس، جب ایسا کیا جائے کہ ضمیر کے ٹوکنے کی پرواہ نہ کی جائے، تو دھیرے دھیرے ضمیر بے حس ہوجائے گا۔ اسی کو کہتے ہیں ضمیر کا مردہ ہوجانا۔