فتنہ ٔعام
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:سَتَکُونُ فِتَنٌ، القَاعِدُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ القَائِمِ، وَالقَائِمُ خَیْرٌ مِنَ المَاشِی، وَالمَاشِی فِیہَا خَیْرٌ مِنَ السَّاعِی، مَنْ تَشَرَّفَ لَہَا تَسْتَشْرِفْہُ، فَمَنْ وَجَدَ مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا، فَلْیَعُذْ بِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7082)۔ یعنی عنقریب فتنے ہوں گے۔ اس میں بیٹھنے والا، کھڑے رہنے والے سے بہتر ہوگا، اور کھڑا رہنے والا، چلنے والے سے بہتر ہوگا، اور چلنے والا کوشش کرنے والے سے بہتر ہوگا، جو اس کی طرف جھانکے گا، وہ اس میں واقع ہو جائے گا، تو جو بھی کوئی پناگاہ یا بچنے کی جگہ پائے، تو وہ اس میں پناہ لے لے۔
اس حدیث میں ایک عمومی فتنہ کا ذکر ہے۔ اس سے مراد غالباً وہ دور ہے، جب کہ ٹکنالوجی کی دریافت کے نتیجے میں مواقع (opportunities) بہت زیادہ بڑھ جائیں گی۔ ہر آدمی کو دکھائی دے گا کہ وہ بھی ان سب چیزوں کو پاسکتا ہے، جو بظاہر دوسرا آدمی پائے ہوئے ہے۔ مال کے اعتبار سے، سیاسی عہدے کے اعتبار سے، مادی فائدے کے اعتبار سے امکانات اتنے زیادہ بڑھ جائیں گے کہ اس کی رسائی ہر آدمی تک ہو جائے گی۔ گھر کے معاملے میں، اپنی فیملی کے معاملے میں، اپنے بچوں کے معاملے میں،ہر آدمی بڑی بڑی ترقی کا خواب دیکھنے لگے گا۔ یہ فتنہ ہر آدمی کو مادہ پرست بنا دے گا۔ ہر آدمی پر ایک ہی شوق غالب ہوگا کہ وہ اور اس کی فیملی زیادہ سے زیادہ دنیوی ترقی حاصل کرے۔
مادی ترقی کی دوڑ اس زمانے میں اتنا زیادہ عام ہوجائے گی کہ دوسری چیز آدمی کو نظر ہی نہیں آئے گی۔ دنیا پرستی کا کلچر مکمل طور پر آخرت پسندی کے اوپر غالب آجائے گا۔ آدمی کو نظر آئے گا کہ جنت جب مجھ کو اسی دنیا میں مل رہی ہے، تو میں جنت کو پانے کے لیے آخرت کا انتظار کیوں کروں۔ کوئی آدمی اگر خود دنیا کی ترقی حاصل نہ کرسکا، تو وہ اپنی اولاد کو ترقی کی اس دوڑ میں ہمہ تن شامل کردے گا۔