جنت کی زندگی

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت جب جنت میں پہنچیں گے، تو وہ جنتی زندگی کے بارے میں کہیں گے: وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَکُورٌ(35:34)۔ یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے حزن کو دور کردیا۔ بیشک ہمارا رب معاف کرنے والا، قدر کرنے والا ہے۔

اس آیت میں حزن کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ حزن کا مطلب ہے، تکلیف (sorrow)۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے لیے سب سے زیادہ ناقابل برداشت چیز حزن ہے۔ حزن کو دورکرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس چیز کو دور کرنا، جو انسان کا سب سے زیادہ ناقابلِ برداشت معاملہ ہوتا ہے۔ انسان ایک کمزور مخلوق ہے۔ انسان سب کچھ برداشت کرلیتا ہے۔ لیکن حزن (تکلیف) اس سے برداشت نہیں ہوتی۔ انسان کی نسبت سے یہ لفظ ایک بے حد نفسیاتی لفظ ہے۔ انسان اگر سوچے تو جنت میں حزن نہ ہونا، اس کے لیے انتہائی پرکشش لفظ ہے۔ کیوں کہ انسان ایسی جگہ کے لیے سب کچھ کر نے کو راضی ہوجائے گا، جہاں حزن نہ ہو۔ اگر اس کو یقین ہوجائے کہ جنت حزن سے خالی جگہ ہے، تو وہ جنت کو پانے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوجائے گا۔جنت کا تصور آدمی کو اسی یقین پر جینے والا بناتا ہے۔

جنت میں حزن نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جسمانی کرب(physical pain) کی ہر قسم سے جنت محفوظ ہوگی۔ آدمی اگر جسمانی حزن سے بچا ہوا ہو، تو اس کو نیند کے وقت اچھی نیند آئے گی، وہ کھانے کے وقت سکون سے کھانا کھائے گا۔ اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا، اس کے لیے آسان ہوجائے گا۔ اس کے لیے زندگی ایک پرسکون زندگی بن جائے گی۔اس کو دن کا سکون بھی حاصل ہوجائے گا، اور رات کا سکون بھی۔ جو کام بھی وہ کرے گا، معتدل انداز میں کرے گا۔ اس کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ اپنا ہر کام کامل یکسوئی کے ساتھ انجام دے۔ زندگی اسی کے لیے زندگی ہے، جو حزن کی کیفیت سے بچا ہوا ہو۔ جو آدمی حزن کی کیفیت میں مبتلا ہو، وہ بظاہر زندہ ہوگا، لیکن اس کی زندگی چین سے خالی ہوگی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom