جنت میں داخلہ
قرآن میں ایک حقیقت کچھ لفظی فرق کے ساتھ دو جگہ بیان ہوئی ہے۔ ایک مقام پر یہ الفاظ ہیں: أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَأْتِکُمْ مَثَلُ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْہُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ مَتَى نَصْرُ اللَّہِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّہِ قَرِیبٌ (2:214)۔دوسری جگہ اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللَّہُ الَّذِینَ جَاہَدُوا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِینَ(3:142)۔ اسی طرح قرآن میں دوسرے مقام پر یہ بتایا گیا ہے کہ جنت صرف مزکّی شخصیتوں کے لیے ہے (طہٰ، 20:76)۔
یہاں یہ سوال ہے کہ تزکیہ کا تعلق سخت حالات سے کیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ جب تک سخت حالات پیش نہ آئیں، آدمی کا تزکیہ مکمل نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تزکیہ کے عمل میں سب سے زیادہ اہم رول ڈی کنڈیشننگ کا ہے۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ ہر آدمی کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ اس کے والدین اس کو اپنے آبائی مذہب پر پختہ کردیتے ہیں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔ تزکیہ کا سب سے اہم عمل یہ ہے کہ وہ انسان کی پختہ تاثر پذیری کو توڑے۔انسان جو کہ ایمان سے پہلے ماحول کا پروڈکٹ بنا ہوا تھا، وہ ایمان کے اثر سے ربانی شعور کا پروڈکٹ بن جائے۔ اسی کا نام تزکیہ ہے۔ تزکیہ در اصل سیلف ڈی کنڈیشننگ کا دوسرا نام ہے، یعنی اپنی متاثر شخصیت کو غیر متاثر شخصیت بنانا۔ فطرت پر پڑے ہوئے پردے کو پھاڑ کر انسان کو دوبارہ اپنی فطری حالت پر قائم کرنا۔ یہ تزکیہ ہے، اور تزکیہ سخت حالات ہی میں مکمل صورت میں انجام پاتا ہے۔ سخت حالات کے بغیر کسی شخص کے اندر ڈی کنڈیشننگ کا پراسس جاری نہیں ہوتا۔ سخت حالات انسان کو آخری حد تک جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ سخت حالات گویا کسی انسان کے لیے "ایپل شاک" کی مانند ہیں۔ نیوٹن کو ایپل شاک کے بغیر زمین کی قوت ِکشش کا ادراک نہیں ہوا۔ اسی طرح مومن کے لیے سخت حالات ایپل شاک کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس تجربے کے بغیر کوئی شخص کامل معنوں میں مزکیّٰ شخصیت نہیں بنتا۔