زیادہ ذہین، زیادہ دُور

انسانوں میں فطری طورپر کچھ لوگ زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور کچھ لوگ کم ذہین۔ پوری تاریخ کا یہ تجربہ ہے کہ زیادہ ذہین لوگوں میں بہت کم ایسے افراد ہوتے ہیں جو خدا کے دین کی طرف راغب ہوں۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ ہر زمانے میں صرف کم تر ذہانت کے لوگ اپنے آپ کو دینی کام میں لگاتے ہیں۔ زیادہ ذہانت رکھنے والے لوگوں میں بہت کم ایسے افراد نکلے جو اپنی صلاحیتوں کو حقیقی معنوں میں، خدا کے دین کے لیے وقف کرسکیں۔

ایسا کیوں ہے، اِس کا سبب وہی ہے جس کو قرآن میں حبِّ عاجلہ (القیامۃ:20) کہاگیا ہے، یعنی فوری فائدہ(immediate gain) کی کشش۔ زیادہ ذہین لوگ بہت جلد منی مارکیٹ (money market) میں اپنے لیے ایک نفع بخش جاب (job) پالیتے ہیں، جب کہ دینی کام کا فائدہ آخرت سے جڑا ہوا ہے۔ منی مارکیٹ میں ان کو فوراً دولت اور شہرت اور اقتدار ملتا ہوا نظر آتا ہے، جب کہ دینی کام میں اُنھیں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے عمل کا انعام پانے کے لیے اُنھیں موت کے بعد آنے والی دنیا کا انتظار کرنا پڑے گا۔ تاریخ کے اِس تجربے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جو شخص زیادہ ذہین ہوتاہے، وہ عملی طورپر اتنا ہی زیادہ نادان ثابت ہوتا ہے۔ ایسے افراد وقتی فائدے کی خاطر، ابدی فائدے کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ دنیا کی جھوٹی خوشی کے بدلے، جنت کی سچی خوشی سے خود کو محروم کرلیتے ہیں۔

زیادہ ذہین آدمی کی ایک کم زوری یہ ہے کہ وہ انانیت پسند (egoist) ہوتا ہے اور دینی کام میں انانیت پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دینی کام ہمیشہ تواضع (modesty) کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ فخر اور برتری کی بنیاد پر۔ زیادہ ذہین لوگ اپنی انا کو کچل نہیں پاتے، اِس لیے وہ دینی کام سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کرپاتے۔ دینی کام دراصل، خدائی کام ہے۔ دینی کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو خدا کے مقابلے میں اپنے آپ کو پوری طرح سرینڈر کیے ہوئے ہوں۔ اِس مزاج میں ادنی کمی بھی کسی آدمی کو دینی کام کے لیے نااہل (incompetent) بنادیتی ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom