متشابہ دنیا
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت کو جب جنت میں داخل کیا جائے گا اور ان کو وہاں کا رزق دیا جائے گا تو اُس کو پاکر وہ کہیں گے کہ—یہ تو وہی ہے جو ہم کو اِس سے پہلے دنیا میں دیا گیا تھا۔ اور اُن کو جنت میں متشابہ رزق دیا جائے گا (البقرۃ: 25)۔
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو دنیائیں ایک دوسرے کے مشابہ پیدا کیں۔ ایک موجودہ دنیا، اوردوسری جنت والی دنیا۔ موجودہ دنیا امتحان (test) کے لیے ہے اور اگلی دنیا انجام (reward) کے لیے۔ موجودہ دنیا ناقص ہے اور آخرت کی دنیا کامل۔ یہ غیر معیاری ہے اور وہ معیاری۔ یہ ناپائدار ہے اور وہ پائدار۔ قرآن کے الفاظ میں، یہاں خوف اور حزن ہے اور دوسری دنیا خوف اور حزن سے مکمل طورپر خالی ہے۔
موجودہ دنیا میں آدمی کو بار بار یہ تجربہ ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ چاہتا ہے وہ بظاہر یہاں موجود ہے، اِس کے باوجود وہ آدمی کے لیے قابلِ حصول نہیں۔ آدمی صحت چاہتا ہے، مگر بیماری، حادثہ اور بڑھاپا اُس کی تمناؤں کی نفی کردیتے ہیں۔ آدمی لذت چاہتا ہے، مگر ہزار کوشش کے بعد جب وہ سامانِ لذت کو حاصل کرلیتا ہے تو اس پر کھُلتا ہے کہ وہ اُس سے انجوائے نہیں کرسکتا۔ آدمی خوشیوں سے بھری ہوئی زندگی چاہتا ہے، مگر خوشیوں کے باغ میں داخل ہو کر وہ دریافت کرتا ہے کہ یہاں خوشیوں کا باغ طرح طرح کے کانٹوں سے بھرا ہوا ہے۔
ایسا اس لیے ہے کہ آدمی کو یہاں جنت کاتعارف صرف دور سے دیا جاتا ہے۔ یہاں آدمی کو جنت کی ایک جھلک تو دکھائی جاتی ہے مگر اسی کے ساتھ اس کو یہ بتایاجاتا ہے کہ جنت تمھیں اس دنیا میں نہیں مل سکتی۔ تمھارے لیے مقدر ہے کہ یہاں تم جنت کے لیے کوشش کرو اور اگلے مرحلۂ حیات میں جنت کو عملاً حاصل کرو۔ موجودہ دنیا میں آدمی سے عمل مطلوب ہے۔ اسی کے ساتھ ابتدائی جھلک کی صورت میں اُس کو دکھا دیا جاتا ہے کہ اگر تم عمل میں پورے اترے تو وہ کون سی دنیا ہے جہاں تمھیں اس کے نتیجے میں داخلہ دیا جائے گا، موجودہ دنیا تعارفِ جنت کا مقام ہے اور اگلی دنیا حصولِ جنت کا مقام۔