خدائی قانون
قرآن کی سورہ نمبر 17 میں ایک خدائی قانون کا ذکر ہے۔ قرآن کی اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اُس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اُس بستی میں نافرمانی کرتے ہیں۔ تب اُن پر بات ثابت ہوجاتی ہے، پھر ہم اُس بستی کو تباہ و برباد کردیتے ہیں ‘‘ (الإسراء: 16)۔
قرآن کی اِس آیت میں ’فسق‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فسق کے لفظی معنیٰ— انحراف (deviation) کے ہیں، یعنی فطرت کے مقرر راستے سے ہٹ جانا۔ اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے اوپر خدا کا عذاب کب آتا ہے۔ اُس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ سماج کے خوش حال افراد بے خوفی کا شکار ہو کر، خدا کے مقرر راستے سے ہٹ جاتے ہیں، وہ خدا کے نافرمان بن جاتے ہیں۔ اِس انحراف کا آغاز سماج کے خوش حال طبقے سے ہوتاہے۔ اس کے بعد وہ عام لوگوں تک پھیل جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو وہ انسانی گروہ اِس بات کا جواز (justification)کھو دیتا ہے کہ اُس کو اِس زمین پر مزیدزندگی گزارنے کا موقع دیا جائے۔ چناں چہ پیغمبروں کی طرف سے اتمامِ حجت کے بعد اُس کو تباہ کردیا جاتا ہے۔
یہ اصول موجودہ زمانے میں زیادہ بڑے پیمانے پر قابلِ انطباق ہوگیاہے۔ موجودہ زمانے میں انسان کے انحراف نے ایک مکمل تہذیب کا درجہ اختیار کرلیا ہے۔ اب انسان نے اپنے منحرفانہ طرزِحیات کے لیے پورا ایک فلسفہ وضع کرلیا ہے۔ اِس طرح، انسان کا فسق اب اپنے آخری اور عالمی درجے تک پہنچ چکا ہے۔بظاہراب انسان نے اپنا یہ حق کھو دیا ہے کہ وہ موجودہ زمین پر مزید عرصے کے لیے باقی رہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے جو تدمیر (destruction)علاقائی سطح پر ہوتی تھی، اب وہ عالمی سطح پر ہونے والی ہے، یعنی وہی وقت جس کو قرآن میں قیامت کہا گیا ہے۔ قیامت کا مطلب ہے— امتحانی دورِ حیات کا خاتمہ اور اُس دوسرے دورِ حیات کا آغاز جب کہ ہر عورت اور مرد کو اس کے عمل کے مطابق، سزا یا انعام دیا جائے۔