موت ایک یاد دہانی
ایک دن میں اپنے معاصرین (contemporaries) کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ افراد جو میرے زمانے میں پیداہوئے، جن کے ساتھ میں نے زندگی کا سفر طے کیا، جن کے ساتھ میں زمین پر چلتا پھرتا رہا— مسٹر اے کو میں نے زندہ حالت میں دیکھا تھا، مگر آج وہ اِس دنیا میں نہیں ہیں۔ مسٹر بی، مسٹر سی، مسٹر ڈی، مسٹر ای، سب کا یہی انجام ہوچکا ہے۔اِس طرح میں اپنے جاننے والوں میں سے ایک ایک شخص کو یاد کرتا رہا۔ مجھے یاد آیا کہ یہ سارے لوگ اب وفات پاچکے ہیں۔ یہاں تک کہ پچھلے دنوں مجھے خبر ملی کہ مسٹر وائی کی بھی وفات ہوگئی۔ میں گہری سوچ میں پڑ گیا۔ میری زبان سے نکلا کہ—میری باری بہت قریب آگئی:
The countdown has reached the last but one number.
پھر میں نے سوچا کہ یہ معاملہ صرف میرا ذاتی معاملہ نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہی معاملہ ہر عورت اور مرد کا معاملہ ہے۔ ہر ایک روزانہ دیکھ رہا ہے کہ اس کے آس پاس کے لوگ مرتے جارہے ہیں۔ میڈیا کے ذریعہ ہر ایک، دور دور کے لوگوں کے بارے میں بھی اِسی طرح موت کی خبریں سنتا رہتا ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ کوئی شخص یہی بات خود اپنے بارے میں نہیں سوچتا۔ کوئی عورت یا مرد سنجیدگی کے ساتھ یہ غور نہیں کرتا کہ اِسی طرح میں خود بھی بہت جلد مرنے والا ہوں۔ وہ موت سے پہلے کی زندگی کے مسائل کے بارے میں تو ہر وقت سوچتا ہے،لیکن موت کے بعد کے مسائل کے بارے میں کوئی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔جاننے کے باوجود نہ جاننے کے اِس عجیب ظاہرہ کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر عورت ا ور مرد اپنے ڈی این اے (DNA) سے کنٹرول ہوتا ہے۔ آدمی اپنا ہر چھوٹا یا بڑا کام ڈی این اے کی رہ نمائی میں کرتا ہے۔ مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ زندگی کے بارے میں تو ہر ایک کے ڈی این اے میں سب کچھ تفصیل کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ مگر ایک بات کسی کے ڈی این اے میں سرے سے درج نہیں۔ اور وہ موت(death) کا معاملہ ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات تو ڈی این اے کے کوڈ میں درج ہیں۔ اُنھیں کی مسلسل طور پر ڈی کوڈنگ (de-coding) ہوتی رہتی ہے، مگر موت کا تعلق ڈی این اے سے نہیں۔ ہر ایک کی موت براہِ راست طورپر خالق کے حکم سے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک کے لیے موت کا وقت الگ الگ ہے۔ لوگوں کی موت کا کوئی یکساں وقت نہیں۔
انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ موت کے بارے میں خود شعوری (self-consciousness)کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرے۔ وہ اِس معاملے میں اپنے ڈی این اے سے باہر آکر سوچے۔ ایسا کرنے کی صورت ہی میں آدمی موت کی حقیقت کو اپنے ذہن میں تازہ کرے گا۔ ایسا کرنے کی صورت ہی میں یہ ممکن ہوگا کہ وہ موت کے سنگین معاملے کو سمجھے۔ وہ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں موت کے بعد کے دورِ حیات کی تیاری کرے۔
انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ ڈی این اے اس ابدیت (eternity) کی تصدیق کرتا ہے۔ مگر خالق نے اپنے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کی طویل زندگی کو دو دوروں میں بانٹ دیا ہے— موت سے پہلے کا دورِ حیات، اور موت کے بعد کا دورِ حیات۔ اِس کری ایشن پلان کے مطابق، موت سے پہلے کا مختصر دورِ حیات امتحان (test) کے لیے ہے۔ اور موت کے بعد کا طویل تر دورِ حیات ٹسٹ پیریڈ کے ریکارڈ کے مطابق، اپنے عمل کا ابدی انجام پانے کے لیے۔
اِس وقت تمام لوگ وقتی خوشی (right here, right now)کے تصور کے تحت جی رہے ہیں۔ وہ حال رخی (present-oriented) زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن اگر انھیں حقیقتِ واقعہ کا شعور ہوجائے تو ان کی زندگی کا نقشہ بالکل بدل جائے۔ اب آنے والادن ان کا سب سے بڑا کنسرن بن جائے۔ ہر ایک مستقبل رخی(future-oriented) زندگی گزارنے لگے۔ حال رخی زندگی، تعمیر ِ دنیا کے اصول پر قائم ہے، جب کہ مستقبل رخی زندگی آخرت کے لیے تیاری کے اصول پر قائم ہوتی ہے— جو لوگ اِس حقیقت کو جان لیں، وہی کامیاب ہیں اور جو لوگ اِس حقیقت سے بے خبر رہیں، وہی ناکام۔