توبۂ نصوح
قرآن کی سورہ نمبر 66 میں بتایا گیا ہے کہ توبۂ نَصوح کیا ہے۔ اِس سلسلے میں ارشاد ہوا ہے: ااے ایمان والو، اللہ کے آگے توبۂ نصوح کرو۔ امید ہے کہ تمھارا رب تمھارے گناہ معاف کردے اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ جس دن اللہ، نبی کو اور اس کے ساتھ ایمان والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔ ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کے دائیں طرف دوڑ رہی ہوگی۔ وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب، ہمارے لیے ہماری روشنی کو کامل کردے اور ہماری مغفرت فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے (التحریم:8)
نصوح یا ناصح کے معنی خالص کے ہیں۔ کہاجاتا ہے: ہذا عسل ناصحٌ، یعنی یہ خالص شہد ہے۔ توبۂ نصوح کا مطلب خالص توبہ یا سچی توبہ ہے۔مفسر القرطبی نے لکھا ہے کہ علما نے توبۂ نصوح کے23معانی بتائے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ 23 مختلف معانی نہیں بلکہ وہ خالص توبہ کے مختلف مظاہر ہیں۔ یہ مظاہر صرف 23 تک محدود نہیں۔ وہ اس سے بہت زیادہ ہیں، حتی کہ وہ 23 ہزار بھی ہوسکتے ہیں۔
آدمی کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے۔ اس کے بعد اس کو اپنی گنہ گاری کا احساس ہو۔ وہ اپنے دل میں شدید طور پر شرمندہ (repentant)ہو اور پختہ عزم کے ساتھ وہ خدا کی طرف رجوع کرلے تو اسی کا نام توبۂ نصوح ہے۔
آدمی اگر حقیقی طورپر توبۂ نصوح کرے تو اس کے بعد اس کی پوری زندگی بدل جائے گی۔ اس کی سوچ کا رخ پہلے اگر غیر اللہ کی طرف تھا تو اب وہ اللہ کی طرف ہوجائے گا۔ پہلے اگر وہ غیر سنجیدہ تھا تو اب وہ سنجیدہ ہوجائے گا۔ پہلے اگر وہ غیر ذمے دارانہ زندگی گزارتا تھا تو اب وہ ذمے دارانہ زندگی گزارنے لگے گا۔ پہلے اگر وہ اپنے قول و عمل میں آزاد تھا تو اب وہ اپنے قول و عمل کا سخت پابند ہوجائے گا۔ پہلے اگر وہ آخرت سے بے خوف تھا تو اب وہ آخرت کے اندیشے میں زندگی گزارنے لگے گا— حقیقی توبہ آدمی کو بدل دیتی ہے اور جو توبہ آدمی کو بدل ڈالے، وہی توبۂ نصوح ہے۔