بے نتیجہ بھیڑ

میں نے ایک مشہور مسلم اسپیکر کا انٹرویو پڑھا۔ اِس انٹرویو میں انھوں نے پُر مسرت انداز میں اپنے ایک پروگرام کا ذکر کیا تھا۔ انھوں نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ— منتظمین نے مجھ سے بتایا تھا کہ وہ اِس پبلک لیکچر میں تین ہزار لوگوں کی شرکت کی امیدرکھتے ہیں، لیکن ماشاء اللہ، وہاں تقریباً بیس ہزار آدمی تھے جنھوں نے لیکچر میں شرکت کی:

The organizers had told me that they expected around three thousand for the public lecture, but masha allah, there were some twenty thousand who attended the lecture. (The Muslims World League Journal, April 2008, p. 16).

عام طورپر لوگوں کا رجحان یہ ہے کہ وہ بھیڑ (crowd) کو جلسے کی کامیابی کا معیار سمجھتے ہیں، حالاں کہ کسی جلسے کی کامیابی کا معیار وہ نتیجہ ہے جو افراد کی سطح پر ظاہر ہوتا ہے۔ میں نے باربار اِس کا تجربہ کیا ہے کہ جو لوگ بھیڑ والے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں، اُن سے جب پوچھا جائے تو وہ شان دار الفاظ میں جلسے کی تعریف کریں گے، لیکن اگر اُن سے یہ سوال کیا جائے کہ تم ذاتی طورپر وہاں سے کیا پیغام لے کر لوٹے، یعنی تمھارا اپنا ٹیک اوے (take away) کیا تھا۔ اِس سوال کے جواب میں آدمی کے پاس کچھ بھی کہنے کے لیے نہیں ہوتا۔ وہ بار بار جوش کے ساتھ یہ کہے گا کہ ہم کو بہت کچھ ملا، لیکن اگر پوچھا جائے کہ متعین (specific) طورپر کوئی ایک بات بتاؤ، تو وہ اِس کے جواب میں کچھ بھی نہیں بتا پاتا۔

ایسا کیوں ہے۔ ایسا اِس لیے ہے کہ فرد کی نفسیات الگ ہوتی ہے، اور مجمع کی نفسیات الگ۔ اگر آپ ایک، یا چند آدمی سے براہِ راست طورپر کوئی بات کہیں، تو وہ آدمی اپنے آپ کو اس کا مخاطب سمجھے گا اور بات کو بخوبی طورپر پکڑے گا، لیکن جب ایک مقرر شان دار اسٹیج پر لاؤڈاسپیکر کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور ایک بھیڑ کو مخاطب کرتا ہے، تو ایسے عمومی ماحول میں مقرر کی بات فضا میں بکھر جاتی ہے۔ کوئی بھی ایک شخص اپنے آپ کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتا۔ اِس لیے اِس قسم کی بھیڑ میں کسی فرد کا مائنڈ ایڈریس نہیں ہوتا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم یہ منظر دیکھتے ہیں کہ جب سے پریس اور اسٹیج اور میڈیا کا زمانہ آیا ہے، بڑے بڑے مقرر پیدا ہوئے۔ انھوں نے ہزاروں مواقع پر شان دار ماحول میں بڑی بڑی بھیڑ کو خطاب کیا ہے، لیکن نتیجے کے اعتبار سے یہ تمام خطابات صفر کے درجے میں بے نتیجہ رہے۔ اِس طرح کے خطابات کے نتیجے میں چند انسان بھی بن کر تیار نہیں ہوئے۔ ایسے مقرریں کو خود تو مقبولیت حال ہوجاتی ہے، لیکن جن لوگوں کی بھیڑ کو وہ خطاب کرتے ہیں، وہ لوگ بدستور اپنی سابقہ حالت پر پڑے رہتے ہیں۔

اِسی قسم کے ایک مشہور مقرر کے بارے میں میں جانتا ہوں۔ وہ پچاس سال تک بڑی بڑی بھیڑ کو خطاب کرتے رہے، لیکن آخر عمر میں اُن کو محسوس ہوا کہ وہ شان دار خطابات کے باوجود چند آدمی کو بھی اپنا حقیقی ساتھی نہ بنا سکے۔ وہ بھیڑ کے اندر اپنے آپ کو تنہا پاتے تھے۔ اپنی عمر کے آخری زمانے میں اپنے ایک قریبی ساتھی کے نام انھوں نے ایک نجی خط (personal letter) میں اپنے اِس غم انگیز احساس کا ذکر کیا اور اپنے آپ کو اِس شعر کا مصداق بتایا:

وہ محرومِ تمنا کیوں نہ سوئے آسماں دیکھے کہ جو لمحہ بہ لمحہ اپنی کوشش رائگاں دیکھے

اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ بھیڑ کو ایڈریس کرنے کے بجائے، افراد کو ایڈریس کیاجائے۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے لوگوں کے اندر حقیقی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ایک ایسا پولٹکل لیڈر جس کی ضرورت صرف یہ ہو کہ الیکشن کے وقتی موقع پر لوگ اس کو ووٹ دے دیں، وہ ضرور بھیڑ کو اہمیت دے سکتا ہے۔ لیکن ایک حقیقی مُصلح (reformer) کے لیے ضروری ہے کہ وہ فرد فرد کی اصلاح کرکے اپنی ایک ٹیم بنائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی اصول کے مطابق، اپنی ایک ٹیم بنائی تھی جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ اصحاب، یا صحابہ دراصل ٹیم کا دوسرا نام ہے۔ یہ ٹیم سازی بھی ایک عظیم سنتِ رسول ہے۔ امت کے مصلحین کو ہر زمانے میں یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنی مقبولیت کی قربانی دے کر اِس قسم کی ٹیم بنائیں یہ ٹیم ہی مشن کے تسلسل کی ضامن ہے۔ بھیڑ صرف ایک وقتی نمائش ہے۔ مستقل فائدہ صرف ٹیم کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بھیڑ کا طریقہ صرف ایک سیاسی طریقہ ہے، وہ اسلام کا طریقہ نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom