آنے والا کل

قرآن کی سورہ نمبر 75 کی ایک آیت یہ ہے: کلّا بل تحبّون العاجلۃ، وتذرون الآخرۃ (القیامۃ: 20-21) یعنی ہرگز نہیں، بلکہ اصل یہ ہے کہ تم عاجلہ سے محبت کرتے ہو، اور تم آخرت کو نظر انداز کیے ہوئے ہو:

Nay, but you love the present life, and neglect the hereafter.

کوئی انسان جب پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے، تو وہ دیکھتا ہے کہ اِس دنیا میں ہر طرف اس کے لیے مختلف قسم کے مواقع (opportunities) موجود ہیں۔ وہ اِن مواقع کو استعمال کرنے کے لیے اُن کے اوپر ٹوٹ پڑتا ہے، ٹھیک اُسی طرح جیسے کوئی جانور ہری گھاس کو دیکھ کر اس کے اوپر ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اِن مواقع کے ذریعے وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرلے۔

یہ سب سے بڑی بھول ہے، جس میں ہر انسان مبتلا ہے۔ موجودہ دنیا کے مواقع اِس لیے نہیں ہیں کہ اُن کے ذریعے صرف وقتی قسم کے دنیوی فائدے حاصل کیے جائیں، بلکہ یہ مواقع اِس لیے ہیں، تاکہ انسان اُن کی مدد سے وہ اعلیٰ کام کرے، جو آخرت میں اُس کے لیے مفید بننے والا ہو۔ مثلاً کسی کے پاس مال ہے تو وہ اِس لیے نہیں ہے کہ وہ اُس کے ذریعے اپنی خواہشوں کو پورا کرے۔ وہ سماج کے اندر اپنے اسٹیٹس (status) کو زیادہ سے زیادہ بڑھائے۔ وہ اعلیٰ معیار کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ بلکہ مال کا صحیح مصرف یہ ہے کہ— بقدر ضرورت وہ اس کو اپنے پاس رکھے، اور بقیہ مال کو وہ خدا کی راہ میں خرچ کرے۔ مثلاً دعوت الی اللہ کا کام۔

موجودہ دنیا عارضی ہے، اور بعد کو آنے والی دنیا ابدی۔ مگر عجیب بات ہے کہ آدمی اپنا سب کچھ عارضی دنیا کی ترقی اور خوش حالی میں لگا دیتا ہے، لیکن آخرت کی ابدی زندگی کے معاملے کو وہ اِس طرح چھوڑے ہوئے ہوتا ہے، جیسے کہ وہ کبھی پیش آنے والا ہی نہیں۔دانش مند وہ ہے جو آخرت کی فکر میں جیے، اور نادان وہ ہے جو آخرت کی فکر سے غافل ہوجائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom