اکرام یا تکلف
موجودہ زمانے میں یہ عام رواج ہے کہ لوگ اپنے مہمان کے کھانے پینے کے لیے غیر معمولی اہتمام کرتے ہیں اور اُس پر بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر اُن سے کہا جائے کہ یہ اسراف ہے اور وہ اپنے وقت اور مال کا ضیاع ہے، تووہ کہیں گے کہ یہ تو شریعت کی تعلیم ہے۔ شریعت میں ’اکرامِ ضیف‘ کا حکم دیا گیا ہے، اِس لیے ہم ایسا کرتے ہیں۔
مگر یہ سرتا سر ایک بے بنیاد بات ہے۔ شریعت میں جس اکرامِ ضیف کا حکم ہے، وہ صرف بقدرِ ضرورت ہے، نہ کہ بقدرِ تکلف۔ یہ صحیح ہے کہ حدیث میں اکرامِ ضیف کی تعلیم دی گئی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو، اُس کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے (مَن کان یؤمن باللہ والیوم الآخرفلْیکرم ضیفہ)۔ مگر اکرام کا مطلب ہر گز تکلف نہیں۔ اکرام سادہ معنوں میں ایک انسانی اور اخلاقی نوعیت کی چیز ہے، نہ کہ کوئی نمائش اور تکلف کی چیز۔
مہمان کے لیے اکرام کے نام پر تکلف کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ چناں چہ حضرت سلمان کہتے ہیں کہ: نہیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن نتکلف للضّیف (الجامع الصغیر، جلد 2، صفحہ 1159) یعنی رسول اللہ نے ہم کو اِس بات سے منع فرمایا کہ ہم مہمان کے لیے تکلف کریں۔ اِسی طرح، ایک اورروایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أناوأتقیائُ أمّتی بُرآئُ من التکلف (کشف الخفاء، جلد 1، صفحہ 236) یعنی میں اور میری امت کے متقی لوگ تکلف سے بہت زیادہ دور رہنے والے ہیں۔
نفسیاتی اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مہمان کی آمد کے موقع پر جوتکلف کیا جاتا ہے، وہ حقیقۃً لوگوں کے نزدیک، خود اپنے اکرام کی ایک صورت ہوتی ہے، نہ کہ مہمان کے اکرام کی صورت۔ حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر تقویٰ کی صفت موجود ہو، وہ کبھی تکلف جیسی نمائشی چیز کا تحمل نہیں کرسکتا۔