عمومی بگاڑ کا دور
روایات میں آیا ہے کہ ایک شخص، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااور یہ سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی (متی الساعۃ)۔ آپ نے جواب دیا کہ— جب امانت ضائع کی جانے لگے تو اُس وقت تم قیامت کا انتظار کرو (فإذا ضُیّعت الأمانۃ فانتظر السّاعۃ)۔ آنے والے نے پوچھا کہ امانت ضائع کیا جانا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب عہدے نا اہل لوگوں کو دیے جانے لگیں، تو اس وقت تم قیامت کا انتظار کرو (إذا وُسّد الأمر إلی غیر أہلہ فانتظر الساعۃ) صحیح البخاری، کتاب العلم، باب مَن سُئل علماً۔
اِس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں اُس آخری دور کا ذکر ہے، جب کہ دنیا میں عمومی بگاڑ آجائے گا۔ اِسی عمومی بگاڑ کا یہ نتیجہ ہوگا کہ تمام عہدوں پر نا اہل افراد قابض ہوجائیں گے۔ وہ اپنے منصب کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کریں گے، نہ کہ اپنی ذمے داری کو پورا کرنے کے لیے۔ ایسا کب ہوگا۔ ایسا اُس وقت ہوگا جب کہ سماج میں صرف نا اہل افراد باقی رہ جائیں۔
اِس حدیث میں دراصل اُس وقت کا ذکر ہے، جب کہ عمومی بگاڑ اپنی آخری حد پر پہنچ جائے گا، جب کہ غلط کام کرنے والا اپنے غلط کام کو اچھا سمجھے گا، جب غلط کام کرنے والوں کو کوئی روکنے والا نہ ہوگا، جب منافقانہ باتوں کا عمومی رواج ہوجائے گا، جب غلط قسم کے لوگوں کو سماج میں غلبہ حاصل ہوجائے گا، جب لوگ صرف اپنے ذاتی مفاد کو جانیں گے، نہ کہ اپنی ذمہ داریوں کو۔
موجودہ زمانے میں وہ حالات پوری طرح ظاہر ہوچکے ہیں جن کو قربِ قیامت کی علامت کہاجاسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں پہلی بار ایسا ہوا کہ نظریاتی جواز (ideological justification) کے تحت، برائیاں کی جارہی ہیں۔ بظاہر اب اِس کا امکان ختم ہوچکا ہے کہ لوگ اپنے رویّے پر نظر ثانی کریں اور اپنی اصلاح کریں۔ جب انسان کا یہ حال ہوجائے تو موجودہ زمین پر انسان کی آبادی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اِس کے بعد جو اگلا مرحلہ ہے، وہ وہی ہے جس کو قیامت اور روزِ جزا (Day of Judgement) کہاجاتا ہے۔