اِقرا کلچر
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی 610 عیسوی میں اتری۔ اُس کے الفاظ یہ تھے: إقرأ باسم ربّک الّذی خلق (العلق: 1) اقرأکے لفظی معنٰی ہیں— پڑھو، لیکن اِس میں پڑھاؤ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ کیوں کہ جب آدمی سچائی کو دریافت کرتا ہے تو فطری طورپر وہ چاہتا ہے کہ اِس سچائی سے وہ دوسروں کو بھی آگاہ کرے۔ اِس اعتبار سے، اِس آیت کا مطلب ہے— پڑھو اور پڑھاؤ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہ تھا۔ آپ، لوگوں کو اسلام کی دعوت پیش کرتے اور ان کے سامنے قرآن پڑھ کر سناتے (فعرضَ علیہم الإسلام، وقرأ علیہم القرآن)۔ گویا کہ آپ قرآن کے قاری بھی تھے اور اُس کے مقری بھی۔ ہجرت سے پہلے، صحابی ٔ رسول مصعب بن زبیر (وفات: 690 ء) دعوتی مشن کے تحت، مدینہ گئے۔ وہاں اُن کا طریقہ یہ تھا کہ وہ قرآن کو یاد رکھتے اور اُس کو پڑھ کر لوگوں کو سناتے۔ چناں چہ وہ مقری کہے جانے لگے (وکان یُدعیٰ المُقرئ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب بیک وقت قاری بھی تھے اور مقری بھی۔
اب پرنٹنگ پریس کا زمانہ آگیا ہے۔ اب یہی کام ہم کو مطبوعہ دعوتی لٹریچر کے ذریعہ کرنا ہے، ایسا دعوتی لٹریچر جو وقت کی زبان میں ہو، جو جدید ذہن کو ایڈریس کرے۔ اِس قسم کا لٹریچر، بروشر اور پمفلٹ، موجودہ زمانے میں دعوت کا سب سے زیادہ موثر ذریعہ ہے۔ ہر مسلمان کا یہ دعوتی فرض ہے کہ اُس کی جیب میں، یا اس کے بیگ میں اِس قسم کا خوب صورت چھپا ہوا لٹریچر موجودہو اور جب اُس کو کوئی شخص ملے، تو وہ فوراً اُس کواس لٹریچر کی ایک کاپی پیش کردے۔ یہ کام ہر مسلم عورت اور ہر مسلم مرد کو کرنا ہے، اور ساری دنیا میں کرنا ہے۔
دعوتی فریضے کی ادائیگی کی یہ کم سے کم صورت ہے۔ مسلمان، ختمِ نبوت کے بعد مقامِ نبوت پر ہیں۔ اگر وہ دعوت الی اللہ کا پیغمبرانہ فریضہ ادا نہ کریں، تو دوسری کوئی بھی چیز اُن کو خدا کی پکڑ سے بچانے والی نہیں۔