ایمان، ایمان پلَس
قرآن کی سورہ نمبر 4 میں کہاگیا ہے: یٓأیہا الذین آمنوا، آمنوا (النساء: 136) یعنی اے ایمان والو، ایمان لاؤ۔ ایمان کے بعد ایمان کیا ہے۔ اِس کا جواب خود قرآن کی اِس آیت میں موجود ہے: قالتِ الأعراب آمنّا، قُل لم تؤمنوا ولٰکن قوُلوا أسلمنا، ولمّا یدخل الإیمانُ فی قلوبکم (الحجرات: 14) یعنی اَعراب نے کہا کہ ہم ایمان لائے۔ اُن کو بتادو کہ تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے، اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوا۔
دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد ایمان کا مطلب یہ ہے کہ ایمان باللّسان کے بعد اپنے ایمان کو داخلُ القلب ایمان بناؤ، وہ ایمان جو تمھاری پوری شخصیت میں شامل ہوجائے، جس طرح رنگ پانی کے اندر پوری طرح شامل ہوجاتاہے (البقرۃ:138) اِس بات کو دوسرے الفاظ میں، اِس طرح کہاجاسکتا ہے کہ اپنے ایمان کو ایمان پلس (ایمان مزید) بناؤ، سادہ ایمان کو ایمانِ معرفت کے درجے تک پہنچاؤ۔ اِسی حقیقت کو قرآن میں اِزدیادِ ایمان (الفتح: 4) کہا گیا ہے۔ یعنی اپنے ایمان پر مزید ایمان کا اضافہ کرو۔اِس ایمانِ مزید کے حصول کے دو ذریعے ہیں— آیاتِ وحی، اور آیاتِ کائنات۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک سچے انسان کے لیے، آیاتِ وحی میں تدبر کرنا، معرفتِ حق (المائدۃ:83) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اِسی طرح، قرآن کے مطابق، آیاتِ کائنات میں غور وفکر کرنے سے تبیینِ حق (حٰمٓ السجدۃ: 53) کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان، یا معرفتِ حق کے دو درجے ہیں— ابتدائی معرفت، اور اعلیٰ معرفت۔ اِسی اعتبار سے، جنت کے بھی دو بڑے درجے ہیں (الرحمن: 62)۔ اعلیٰ معرفت والوں کے لیے قرآن میں ’السابقون الأوّلون‘ (الواقعۃ:10) کا لفظ آیا ہے، اور ابتدائی معرفت والوں کے لیے ’أصحاب الیمین‘ (الواقعۃ:27) کا لفظ۔ معرفتِ حق کے یہی دو درجے ہیں، اِس کے سوا معرفت کا کوئی اور درجہ نہیں۔