مشقتوں کے درمیان

  قرآن کی سورہ نمبر ۹۰ میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔ اس قانون کا تعلق تمام انسانوں سے ہے، خواہ وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی، خواہ وہ بظاہر اچھے ہوں یا برے۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیت یہ ہے :

ہم نے انسان کو مشقت میں پیداکیاہے‘‘(البلد:۴)

  قرآن کے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام اس طرح بنا یا گیا ہے کہ یہاں انسان کے ساتھ بار بار پرمشقت حالات پیش آئیں، اس کو مختلف قسم کی مشکلات سے گذرنا پڑے۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ کسی بھی تدبیر کے ذریعہ اس قانون کو بدلانہیں جا سکتا۔ ہر انسان کو لازمااس امتحان سے گذرنا ہے۔ مشقتوں سے باہر اپنے سفر کے لیے کوئی آسان راستہ ممکن نہیں۔

  زندگی کو اس نہج پر کیوں بنا یاگیا۔ یہ خو دانسان کے فائدے کے لیے ہے۔ مشقتیں انسان کو انسان بناتی ہیں۔ مشتقیں انسانی شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں۔مشقتوں کے درمیان انسان کو وہ سبق اور وہ تجربہ حاصل ہوتا ہے جو اس کے ذہنی ارتقاء کے لیے ضروری ہے۔

  مشکلات انسان کے ذہن کو جگاتی ہیں۔مشکلات انسان کو سنجیدہ بناتی ہیں۔ مشکلات انسان کوحقیقت پسند بنانے کاذریعہ ہیں۔ مشکلات سے گذرنے کے بعد انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں جن کو احتیاط، ضبط نفس، ڈسپلن، احساس ذمہ داری اور اعتراف کہاجاتا ہے۔ جولوگ مشقت کے کورس سے نہ گذریں وہ سطحی انسان بن کررہ جائیں گے۔ ایسے لوگ انسانیت کے اعلیٰ درجہ تک نہیں پہنچ سکتے۔

  مشقت اپنی حقیقت کے اعتبار سے کوئی مصیبت یابرائی نہیں، مشقت انسانی زندگی کے لیے ایک ترقیاتی کورس ہے۔ جو انسان مشقتوں کاتجربہ نہ کرے وہ زندگی کی گہری حقیقتوں سے بے خبر رہے گا۔ مشقت ایک کورس ہے جو آدمی کو گہری حقیقتوں سے واقف کراتا ہے۔ وہ آدمی کے چھپے ہوئے امکانات کو ظہور میں لاتا ہے۔ وہ کسی آدمی کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ مشقت زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کے ہم معنی ہے۔ مشقت ہر قسم کی ترقیوں کازینہ ہے، جہاں مشقت نہیں وہاں ترقی بھی نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom