منی مینجمنٹ
قرآن کی سورہ نمبر ۱۷ میں بتایا گیا ہے کہ تم اپنی کمائی کو کس طرح اور کن مدوں میں خرچ کرو۔ اس سلسلہ میں قرآن کی دوآیتیں یہ ہیں:
اور رشتہ دار کوا س کا حق دو اور مسکین کو اور مسافر کو اور فضول خرچی نہ کرو۔ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔(بنی اسرائیل:۲۶۔۲۷)
قرآن کی اس آیت میں جو حکم دیا گیا ہے اس کو دوسرے لفظوں میں منی مینجمنٹ کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اپنی کمائی کو حقیقی ضرورت کے مطابق بااصول انداز میں خرچ کرنا اور بے فائدہ کاموں میں اپنا پیسہ خرچ کرنے سے بچنا۔ فضول خرچی کے معاملے میں قرآن اتنا زیادہ سنجیدہ ہے کہ اس نے فضول خرچی کو ایک شیطانی فعل قرار دیا ہے۔
پیسہ کمانا جس طرح ایک کام ہے اسی طرح پیسہ کوخرچ کرنا بھی ایک کام ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے پیسے کو درست طور پر خرچ کرے۔وہ اپنے پیسے کو ضائع نہ کرے۔ پیسے کو درست طور پر خرچ کرنا یہ ہے کہ خرچ کی ضروری مد اور غیر ضروری مد میں فرق کیا جائے۔ پیسے کو صرف ضروری مد میں خرچ کیاجائے اور غیر ضروری مدوں میں پیسے کوخرچ کرنے سے مکمل طور پر پرہیز کیاجائے۔
قرآن کی اس آیت میں فضول خرچی کو تبذیر کہا گیا ہے،یعنی پیسے کو غیرذمہ دارانہ طور پر بکھیرنا۔ اس قسم کی روش ایک تباہ کن روش ہے۔ پیسہ کسی کو اس لیے ملتا ہے کہ وہ اس سے اپنی حقیقی ضرورتوں کو پورا کرے اور جو پیسہ اپنی حقیقی ضرورت سے زیادہ ہو اس کو سماج کی تعمیری مدوں میں خرچ کرے۔ یہی خرچ کی صحیح صورت ہے اور اسی میں فرد اور سماج کی ترقی کاراز چھپا ہوا ہے۔
قرآن میں مال کو قیام (النساء:۵) کہا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مال زندگی کی تعمیر کے سلسلے میں بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ مال ہر انسان کے پاس خدا کی ایک امانت ہے۔ جو لوگ مال کو غیر ذمہ دارانہ طور پر خرچ کریں وہ بیک وقت دوسنگین برائیوں میں مبتلا ہیں۔ ایک اعتبار سے وہ ایک مقدس امانت میں خیانت کے مرتکب ہورہے ہیں اور دوسرے اعتبار سے وہ خودا پنی ذاتی تعمیر کے معاملہ میں بدترین ناعاقبت اندیشی کاشکار ہیں۔