ڈی کنڈیشننگ کی ضرورت

  قرآن کی سور ہ نمبر ۵۰ میں آخرت کا ایک منظر بتایا گیا ہے۔ حق کے منکر ین دو بارہ زندہ ہو کر خدا کے سامنے لائے جائیں گے۔ اس وقت خدا ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمائے گا۔ وجاء ت کل نفس معہا سائق وشہید، لقد کنت فی غفلۃ من ہذا فکشفنا

عنک غطاء ک فبصرک الیوم حدید:

  ’’ ہر شخص اس طرح آگیا کہ اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا ہے اور ایک گواہی دینے والا۔ تم اس سے غفلت میں رہے، پس ہم نے تمہارے اوپر سے پردہ ہٹا دیا، پس آج تمہاری نگاہ تیز ہے‘‘۔   (ق:۲۱۔۲۲)

  قرآن کی ان آیتوں میں جس معاملہ کا ذکرہے اس کو انسانی زبان میں کنڈیشننگ اور ڈی کنڈیشننگ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ آدمی اپنے بچپن میں اور جوانی کی عمر میں ذہنی اعتبار سے غیر پختہ (immature) ہوتا ہے۔ اس زمانے میں وہ تجزیہ کرنے اور صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہر آدمی اپنے ماحول کے اعتبار سے متاثر ذہن بن جاتا ہے۔ اسی کو نفسیات کی اصطلاح میں کنڈیشننگ(conditioning) کہتے ہیں۔

  اس کنڈیشننگ کی بنا پر آدمی اس قابل نہیں رہتا کہ وہ چیزوں کو بے آمیز صورت میں دیکھ سکے۔ وہ چیزوں کو ویسانہیں دیکھتا جیسا کہ وہ ہیں۔ بلکہ وہ چیزوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسا کہ اس کاذہن اس کو دکھانا چاہتا ہے۔

  اس لیے صحیح طرز فکر یاآبجیکٹیو تھنکنگ(Objective thinking) کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر آدمی اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے ذہن کے اوپر پڑے ہوئے مصنوعی پردوں کو ایک ایک کرکے ہٹادے۔ خود احتسابی کایہ عمل ہر آدمی کو لازما کرنا ہے۔ اس ڈی کنڈیشننگ کے بغیر کوئی آدمی اس قابل نہیں ہو سکتا کہ وہ حقیقت بیں بنے، وہ چیزوں کے بارے   میں بالکل درست رائے قائم کر سکے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom