دوررس کلام

  قرآن کی سورہ نمبر ۴  میں کامیاب کلام کاذکر کیا گیا ہے۔ پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جولوگ بظاہر انکار کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں ان کو کس طرح اقرار کی روش پر لایاجائے۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے:

  ’’پس تم ان سے اعراض کرو اور ان کو نصیحت کرو اور ان سے ایسی بات کہوجو ان کے دلوں تک پہنچنے والی ہو‘‘۔(النساء:۶۳)

  جب کوئی شخص کسی بات کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو اس کا یہ انکار سادہ طور پر محض انکارنہیں ہوتا بلکہ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اپنے ذہنی ڈھانچے کی بنا پر وہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ لمبی مدت تک ایک خاص فکری ماحول میں رہنے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ وہ چیزوں کو ایک خاص زاویہ سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس لیے وہ چیزوں کو کسی اور زاویہ سے دیکھ نہیں پاتا۔ اکثر حالات میں کسی انسان کاانکار اس کی فکری مجبوری کی بنا پر ہوتا ہے، نہ کہ دانستہ سرکشی کی بنا پر۔

  ایسی حالت میں ضرورت ہوتی ہے کہ صبر آزما کوشش کے ذریعہ اس کے اندرنئی سوچ لائی جائے۔ اس کے ذہن کے اوپر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹادیا جائے۔ مصلح کاکام یہ ہے کہ وہ لوگوں کی منفی روش کو نظرانداز کرتے ہوئے خیر خواہانہ طور پر ان کو سمجھا نے بجھا نے کا طریقہ جاری رکھے۔ وہ ان کے ذہن پر پڑے ہوئے پردوں کو اس طرح ہٹائے کہ سچائی کی بات کسی رکاوٹ کے بغیر اس کے ذہن تک پہنچ جائے۔ جب ایسا ہو گا تو اس کے لیے سچائی کااعتراف اسی طرح آسان بن جائے گا جس طرح کسی باپ کے لیے اپنے بیٹے کو پہچاننا آسان ہوتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom