انتظار کی پالیسی

  قرآن کی سورہ نمبر ۱۲ میں ایک پیغمبر کاواقعہ بیان ہوا ہے۔ ان کے اوپر بہت سے سخت حالات پیش آئے۔ مگر وہ تقویٰ اور صبر پر قائم رہے۔ یہاں تک کہ خدا نے ان کو سر فرازی عطا فرمائی۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد قرآن میں ارشاد ہوا ہے:

جو شخص ڈرے اور صبر کرے تو اللہ نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا(یوسف:۹۰)

  قرآن کی اس آیت میں فطرت کا ایک قانون بتایاگیاہے وہ قانون یہ ہے کہ اس دنیامیں ہر شام کے بعدصبح آتی ہے۔ ایسا ہونا لازمی ہے۔ آدمی کو چاہیے  کہ جب اس پر اندھیری رات آئے تو گھبرانہ اٹھے بلکہ انتظار کی پالیسی اختیار کرے۔ اگر وہ ایسا کرے تو جلد ہی وہ دیکھے گاکہ اس کے اوپر سورج طلوع ہو ااورہر طرف اجالاپھیل گیا۔

  تقویٰ یہ ہے کہ آدمی خدا کے مقرر کیے ہوئے نظام پر راضی رہے۔ اور صبر کامطلب یہ ہے کہ وہ انتظار کی پالیسی اختیار کرے۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ اس کے سواکوئی اور راستہ نہیں جس پر چل کرآدمی اپنی منزل پرپہنچ سکتا ہو۔

  قانون فطرت کے مطابق، اس دنیا میں کوئی ناکامی ابدی ناکامی نہیں۔ ہر ناکام حال کے ساتھ ایک کامیاب مستقبل جڑا ہوا ہے۔ انسان کو چاہیے  کہ وہ بے صبری کر کے اس نظام کو نہ بگاڑ ے۔ وہ صبر کی پالیسی اختیار کرکے قدرت کے اگلے فیصلہ کا انتظار کرتا رہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کے لیے یہی پالیسی مفید بھی ہے اور یہی پالیسی ممکن بھی۔

  فطرت کے اسی اصول کو ایک مشہور مقولہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ انتظار کرو اور دیکھو (wait and see)۔یہ ایک عالمی تجربہ ہے جو اس مقولہ کی صورت میں ڈھل گیا ہے۔ اس معاملہ میں یہی مذہبی تعلیم بھی ہے اور یہی فطرت کاتقاضا بھی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom