معاملہ کی کتابت

  قرآن کے مطابق،درست معاملے کی بے حد اہمیت ہے۔ درست معاملہ کسی انسان کے حق پرست ہونے کی پہچان ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت کاترجمہ یہ ہے:

  ’’ اے ایمان والو، جب تم کسی مقررمدت کے لیے ادھار کالین دین کرو تو اس کو لکھ لیا کرو۔ اور اس کولکھے تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ۔ اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے، جیسا اللہ نے اس کو سکھایا، اسی طرح اس کو چاہیے کہ لکھ دے۔ اور وہ شخص لکھوائے جس پر حق آتا ہے۔ اور وہ ڈرے اللہ سے جو اس کا رب ہے اور اس میں کوئی کمی نہ کرے۔ اور اگر وہ شخص جس پر حق آتا ہے بے سمجھ ہویا کمزور ہو یا خود لکھوانے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو چاہیے کہ اس کاولی انصاف کے ساتھ لکھوادے۔ا ور اپنے مردوںمیں سے دوآدمیوں کو گواہ کرلو۔ اور اگر دومردنہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں، ان لوگوںمیں سے جن کو تم پسندکرتے ہو۔ تاکہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلا دے۔ اور گواہ انکارنہ کریں جب وہ بلائے جائیں۔ اور معاملہ چھوٹا ہویا بڑا، میعاد کے تعین کے ساتھ اس کو لکھنے میں کاہلی نہ کرو۔ یہ لکھ لینا اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کاطریقہ ہے اور گواہی کو زیادہ درست رکھنے والا ہے اور زیادہ قرین قیاس ہے کہ تم شبہ میں نہ پڑو۔ لیکن اگر کوئی سودا دست بدست ہو جس کا تم آپس میں لین دین کیا کر تے ہو تو تم پر کوئی الزام نہیں کہ تم اس کو نہ لکھو۔ مگر جب یہ سودا کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور کسی لکھنے والے کو یا گواہ کو تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ اور اگر ایسا کرو گے تو یہ تمہارے لیے گناہ کی بات ہو گی۔ اور اللہ سے ڈرو، اللہ تم کوسکھا تا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والاہے‘‘۔(البقرہ:۲۸۲)

  یہ آیت قرآن کی سب سے زیادہ لمبی آیت ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ باہمی معاملےمیں کتابت کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔معاملات میں ہمیشہ شکایت اور اختلاف کاامکان رہتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ معاملے کے وقت اس کو باقاعدہ صورت میں لکھ لیاجائے۔ کتابت، معاملے کاایک ایسا مستند ریکارڈ ہے جو کسی امکانی اختلاف کو طے کرنے کے لیے ایک یقینی ذریعہ ہے۔ معاملے    کوباقاعدہ تحریر میں لانا سماج کے باہمی اختلاف کوختم کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔

  نفسیاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ عورت اورمرد کے ذہن کی بناوٹ میں فرق ہے۔ اس فرق کی بناپر ایسا ہے کہ مرد کے اندر کسی ایک چیز پر فوکس کرنے کی زیادہ صلاحیت ہے۔ جب کہ عورت کا فوکس پھیلاہوا ہوتا ہے۔ اس بناپر یہ امکان ہے کہ ایک عورت کسی معاملےکوپوری طرح اپنی ذہنی گرفت میں نہ لے سکے۔ اس فرق کے پیش نظریہ احتیاطی تدبیر بتائی گئی کہ گواہ اگر عورت ہے تو دوعورتوں کو گواہ بنالو تا کہ ایک عورت دوسری عورت کی تلافی کرسکے۔

  آیت کے آخرمیں فرمایا کہ:واتقواللہ ویعلمکم اللہ(اللہ سے ڈرو اور اللہ تم کو تعلیم دیتا ہے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم کا تعلق تقویٰ سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم اور صحت فکر دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ آدمی کے پاس اگر علم یا معلومات  کاذخیرہ ہو تو اس کامطلب یہ نہیں کہ وہ درست فکر یا صحیح سوچ کا بھی حامل ہوگا۔

  اصل یہ ہے کہ علوم قطعیہ(exact sciences) میں ریاضیات اور تجربات کے ذریعہ حتمیت پیدا ہوسکتی ہے۔مگرجہاں تک علوم ظنی(especulative sciences)کا تعلق ہے، ان میں اس قسم کی حتمیت ممکن نہیں۔ اس دوسری قسم کے علوم میں صحت فکر کے لیے

 سنجید گی (sincerity) لازمی طو رپر ضروری ہوتی ہے۔تقویٰ آدمی کے اندر یہی سنجید گی پید اکرتا ہے۔ یہ سنجید گی اس بات کی ضمانت بن جاتی ہے کہ آدمی کا علم اس کوبھٹکنے سے بچا لے۔

  تقویٰ (خوف خدا ) کبرو غرور کاقاتل ہے۔ تقویٰ آدمی کے اندر انانیت (egoism) کاخاتمہ کردیتاہے۔تقویٰ آدمی کو عجب اورخودپسندی سے بچالیتاہے۔تقویٰ آدمی کے اندریہ صلاحیت پیداکرتاہے کہ وہ بے لاگ طورپر سوچے اورکسی آمیزش کے بغیر اپنی رائے قائم کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ تقویٰ کوعلمِ صحیح کاذریعہ بنایاگیاہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom