اطراف ارض، مرکزارض
قرآن کی سورہ نمبر ۲۱ میں وقت کے ان بااقتدار لوگوں کو خطاب کیا گیا ہے جو پیغمبر کی مخالفت کررہے تھے اور اُس کو زیر کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیت یہ ہے:
کیاوہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے اطراف سے گھٹا تے چلے جارہے ہیں پھر کیا یہی لوگ غالب رہنے والے ہیں(الانبیاء:۴۴)
قرآن کی اس آیت سے فطرت کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ اطراف پر قبضہ کرتے ہوئے مرکزتک رسائی حاصل کرنا۔یہ کسی کے خلاف عمل کا سب سے زیادہ کامیاب طریقہ ہے۔ مقابلے کی صورت میں اگر ایسا کیا جائے کہ شروع ہی میں براہ راست اقتدار کے مرکز سے ٹکراؤ شروع کر دیا جائے تو یہ سخت نقصان کا باعث ہو گا۔ اس طریق کار میں فائدہ کی امید کم اور نقصان کی امید زیادہ ہے۔
عملی اقدام کی زیادہ موثر تدبیر یہ ہے کہ اطراف کے شعبوں سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔ اطراف سے چل کر مرکز تک پہنچا جائے۔ غیر سیاسی اداروں میں نفوذ حاصل کرتے ہوئے سیاسی ادارہ پر موثر بننے کی کوشش کی جائے۔ یہ طریقہ کامیابی کا یقینی طریقہ ہے۔ اس کے برعکس دوسرا طریقہ نقصان اور ناکامی کا طریقہ۔
اس حقیقت کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ اکثر حالات میں کسی کے خلاف براہ راست کارروائی مفید نہیں ہوتی۔ اکثر حالات میں زیادہ مفید طریقہ یہ ہے کہ بالواسطہ انداز میں اپنی کوشش شروع کی جائے۔ براہ راست کا رروائی کے مقابلے میں بالواسطہ کارروائی کا انداز اکثر حالات میں زیادہ کامیاب ثابت ہوتا ہے۔