اجتماعی احتساب
قرآن کی سور ہ نمبر ۳میں بتایا گیا ہے کہ کسی معاشرہ کی صلاح وفلاح کے لیے کس چیز کی ضرورت ہے۔ فرمایا :وَلۡتَكُن مِّنكُمۡ أُمَّةٞ يَدۡعُونَ إِلَى ٱلۡخَيۡرِ وَيَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِۚ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ [آل عمران:104] ’’اور ضرور ہے کہ تم میں ایک گروہ ہو جو نیکی کی طرف بلائے اور بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہوں گے‘‘۔ (آل عمرا ن:۱۰۴)
قرآن کی اس آیت میں معاشرہ کی فلاح کے لیے جس اہتمام کاتذکرہ کیا گیا ہے اس کو اجتماعی احتساب کانظام کہا جا سکتا ہے۔ یہ اجتماعی احتساب تمام تر ایک غیرسیاسی ادارہ ہے، اس کاکوئی تعلق حکومت سے نہیں۔ حکومت قائم ہو یا قائم نہ ہو، ہر حال میں اجتماعی احتساب کا یہ کام غیر حکومتی اداروں کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔
ہر سماج میں ایسا ہوتا ہے کہ اس کے بعض افراد ایسے کام کرتے ہیں جس سے لوگوں کے اندر اشتعال پھیلے اور فساد کی نوبت آجائے۔ اس کے روک کی تدبیر یہ ہے کہ سماج کے اندر ایسے افراد اور ایسی تنظیمیں ہوں جو ہر ایسے موقع پر حرکت میں آجائیں۔ وہ برائی کرنے والوں کی مذمت کریں۔ وہ سماج کو تیار کریں کہ وہ ایسے افراد کی براہ راست یا با لواسطہ حمایت نہ کرے۔ وہ نصیحت اور تذکیر کے تمام ذرائع کو استعمال کرکے برائی میں ملوث ہونے والے افراد کی اصلاح کی مہم چلائیں۔ وہ ایسا ماحول پیدا کریں کہ برے افراد کے لیے سماج میں باعزت طور پر رہنا ناممکن ہوجائے۔
یہی اجتماعی احتساب کانظام ہے۔ یہی نظام کسی سماج کی فلاح کاضامن ہے۔ جس سماج میں ایسا ہو کہ سماج کے سربرا ٓوردہ لوگ برے افراد کی مذمت نہ کریں، وہ ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کے لیے کھڑے نہ ہوں، ایسا سماج یقینی طور پر فلاح سے محروم رہے گا۔
آیت میں فرمایا کہ:واو لئک ہم الفلحون(اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہونیو الے ہیں)۔یہ کوئی پراسرار بات نہیں۔ یہ دراصل فطرت کا ایک قانون ہے جس کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے۔
اصل یہ ہے کہ اجتماعی فلاح کا بہت کم تعلق حکومت اور قانون سے ہے۔ اس کازیادہ تعلق ان تعمیری سرگرمیوں سے ہے جو غیر حکومتی سطح پر انجام دی جائیں۔ کسی سماج میں یہ ہونا چاہیے کہ اس کے افراد دوسروں کے معاملےمیں غیر جانبداربن کرنہ رہیں۔ وہ اپنی ذاتی فلاح کے ساتھ دوسروں کی فلاح بھی دل سے چاہتے ہوں۔ جس سماج کے افراد میں یہ اسپرٹ ہو وہاں یہ ہوگا کہ لوگ ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہیں گے۔ وہ ظالم کے مقابلے میں مظلوم کاساتھ دیں گے۔ وہ کسی دوسرے کو تکلیف میں دیکھیں گے تو وہ اس پرتڑپ اٹھیں گے اوراجتماعی زور کے ساتھ اس کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ یہ چاہیں گے کہ سماج میں برائی دبے اور اچھائی پھیلے۔ اس قسم کا اصلاحی مزاج ہی کسی سماج کی تعمیر وترقی کا سب سے بڑا ضامن ہے۔ قرآن کی اس آیت میں دراصل اجتماعی ضمیر کی بات کہی گئی ہے، حکومت واقتدار سے اس کابراہ راست کوئی تعلق نہیں۔