یہ انسان

لکھنؤ کا ایک قصہ ہے ۔ ایک بوڑھی عورت ہاتھ میں پلیٹ لیے ہوئے چوک پر کھڑی تھی اوریہ آواز لگا رہی تھی ، کوئی متنجن کھلا دے ، کوئی متنجن کھلا دے۔

 ایک راہ گیر اس کے قریب سے گزرا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی پلیٹ متنجن سے بھری ہوئی ہے راہ گیر کی سمجھ میں نہ آیا کہ جب اس کے پاس متنجن موجود ہے تو پھر کیوں وہ لوگوں سے متنجن کا سوال کر رہی ہے ۔ راہ گیر نے عورت سے کہا کہ ماں ، تمہارے پاس تو متنجن خود موجود ہے ، پھر تم کس لیے متنجن مانگ رہی ہو۔ عورت نے یہ بات سنی تو بگڑ کر بولی : تم کیسی بات کرتے ہو، متنجن  کہیں بالائی کے بغیربھی کھایا جاتا ہے۔

 ایک صاحب نے یہ قصہ سنایا تو اس کو سن کر اچانک میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے  ۔ میں نے سوچا کہ انسان آج بالائی کے بغیر متنجن کھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے ۔ کل اس کا حال کیا ہو گا جب کہ متنجن تو در کنار ، درخت کی پتیاں بھی نہ ہوں گی جن سے وہ اپنا پیٹ بھر ے ، اور گڑھے کا پانی بھی نہ ہو گا جس سے وہ اپنی پیاس دور کرے ۔

آج کوئی انسان کم پر راضی نہیں ۔ کسی کے پاس چھوٹا مکان ہے تو وہ بڑے مکان پر نظر لگائے ہوئے ہے ۔ کوئی ہزار کما رہا ہے تو وہ لاکھ کی فکر میں ہے ۔ کوئی ممبر ہے وہ صدر بننے کے لیے دوڑ لگا رہا ہے۔ کسی کو ملکی قائد کا درجہ ملا ہے تو وہ انٹرنیشنل قائد بننے کے لیے بے قرار ہے۔ کوئی پیسہ حاصل کر چکا ہے تو اب وہ شہرت اور جاہ حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رہاہے ۔

 کوئی شخص "ساده متنجن "پر راضی نہیں ، ہر آدمی "بالائی والے متنجن" کی طرف چھلانگ لگا رہا ہے ۔ آدمی اگر جانے کہ عنقریب موت آکر ساری صورت حال کو بدل دے گی۔ اس کے بعد نہ موجودہ دنیا ہوگی اور نہ موجودہ دنیا کے حالات ، تو اس کی سوچ کچھ سے کچھ ہو جائے ، وہ آج سےزیادہ کل کی فکر کرنے لگے ۔ وہ حرص کو چھوڑ کر شکر کرنے والا بن جائے ، وہ خواہشوں کے بجائےذمہ داریوں کی طرف اپنی ساری توجہ لگا دے ۔ اس کا ذہن ذاتی خول سے نکل کر انسانی وسعت کے دائرے میں کام کرنے لگے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom