ایک تاثر
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہدایت متقیوں کے لیے ہے (ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ) زمین سوکھی ہو تبھی اس میں پانی جذب ہوتا ہے ، گیلی زمین کبھی پانی کو قبول نہیں کرتی ۔ اسی طرح ہدایت بھی صرف اس شخص کے حصہ میں آتی ہے جو ہدایت کا طالب ہو، جو اپنی تلاش کا آدھا راستہ خود طے کر چکا ہو ۔
آج کی دنیا میں ہر آدمی " گیلی زمین" بنا ہوا ہے ، کسی کی زمین "سوکھی زمین" نہیں ۔ ایسی حالت میں لوگوں کے کھیتوں میں ہدایت کی فصل اُگے تو کس طرح اُگے ۔ جب لوگوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہو تو کیسے لوگوں کو بتایا جائے کہ یہاں ایک روشن سورج چمک رہا ہے۔ جب لوگوں نے اپنے کانوں میں ڈاٹ لگا رکھے ہوں تو کیسے ان کو باخبر کیا جائے کہ یہاں ہرے بھرے درخت حمد الہٰی کے نغمے سنا رہے ہیں۔ جب لوگوں نے اپنا رخ ظاہری رونقوں کی طرف موڑ رکھا ہو تو کیسے انھیں آگاہ کیا جائے کہ ان ظواہر کے دوسری طرف ایک اور اتھاہ دنیا ہے جس میں خدا کی ابدی تجلیات اپنی بہار دکھا رہی ہیں ۔
آج کی دنیا میں کوئی بات کہی جائے تو کس کے لیے کہی جائے ۔ ایک ایسی دنیا جہاں لوگ صرف الفاظ کی زبان سمجھتے ہوں وہاں معانی کی زبان کا نغمہ کس کے لیے چھیڑا جائے۔ ایک ایسی دنیا جہاں لوگوں کو صرف ظاہری حقیقتوں کا پتہ ہو وہاں چھپی ہوئی حقیقتوں کی پردہ دری کی جائے تو کس کے لیے کی جائے۔ ایک ایسی دنیا جہاں لوگ صرف شور و غل کو کام سمجھتے ہوں وہاں خاموش منصوبہ کا راز افشاء کیا جائے تو کس انسان کے لیے کیا جائے ۔ ایک ایسی دنیا جہاں لوگ صرف اپنی ذات کو جانتے ہو وہاں اپنی ذات سے بلند تر حقائق کی پردہ کشائی کی جائے تو کس کے لیے کی جائے۔
آہ وہ دنیا جہاں خدا الگ کھڑا ہوا دیکھ رہا ہو کہ کوئی ہو جو اس کا نغمہ گائے ، کوئی ہو جو اس کی حمد کا ترانہ چھیڑے ۔ مگر انسانوں کے بھرے ہوئے سمندر میں کوئی شخص بھی خدا کا نغمہ گانے والا نہ ہو ۔ جہاں کوئی نہ ہو جو آخرت کی بانسری بجائے، جو فرشتوں کے چھیڑے ہوئے تاروں سے ہم آواز ہو کر حقیقتِ اعلیٰ کے گیت گائے –––––– آج کی دنیا میں انسانوں کے تذکرے ہیں ، مگر خدا کا تذکرہ نہیں ۔ خدا کے نام پر قیادت کرنے والے بے شمار ہیں مگر خدا کے لیے تڑپنے والا کوئی نظر نہیں آتا ۔