پٹرول کے بغیر
ہمارے پڑوس میں ایک صاحب نے نیا اسکوٹر خریدا۔ یہ "بجاج سپر" تھا جو بہت اچھا اسکوٹر سمجھا جاتا ہے ۔ دس سال تک لائن میں رہنے کے بعد یہ قیمتی اسکوٹر انھیں ملا تھا۔
30 اپریل 1983 کی صبح کا واقعہ ہے ۔ میں نے دیکھا کہ مذکورہ پڑوسی اپنے اسکوٹر کے پاس کھڑے ہوئے ہیں اور بار بار پاؤں مار کر اس کو اسٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگروہ اسٹارٹ نہیں ہو رہا ہے ۔ اسی حال میں کافی دیر ہوگئی۔ یہ بات مجھ کو بڑے اچنبھے کی معلوم ہوئی کہ ایک نیا اورعمدہ اسکوٹر اسٹارٹ نہ ہو۔
اتنے میں ان کا ایک دوست وہاں آگیا۔ وہ اس طرح کے معاملات سے کافی واقفیت رکھتا تھا ۔ اس نے جب دیکھا کہ اسکوٹر اسٹارٹ نہیں ہو رہا ہے تو اس نے آگے بڑھ کر اس کا پٹرول چیک کیا۔ اس نے کہا : " گاڑی میں پٹرول تو ہے نہیں ، پھر وہ اسٹارٹ کیسے ہو"۔ اس کے بعد وہ دونوں رزرو پٹرول استعمال کر کے اسکوٹر کو پٹرول پمپ تک لے گئے۔ پٹرول بھرنے کے بعد مذکورہ اسکوٹرسڑک پر اسی طرح دوڑنے لگا جس طرح ایک اچھے اسکوٹر کو دوڑنا چاہیے ۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا معاملہ بھی وہی ہوا ہے جو مذکورہ اسکوٹر کے ساتھ پیش آیا۔ موجودہ زمانے میں بہت سے مسلم رہنما ہیں جو ملت کے احیاء کے لیے اٹھے۔ کسی نے تبلیغی ادارہ قائم کیا، کسی نے حزب اللہ بنائی ۔ کسی نے مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح کا نعرہ دیا ، کسی نے ملی تعمیر کا منصوبہ بنایا ۔ مگر مسلم قوم ان آوازوں پر متحرک نہیں ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے تعمیری نقشہ کو چھوڑ دیا اورجذباتی سیاست کی رَو میں داخل ہو گئے ۔
مسلم رہنماؤں کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے " پٹرول" کے بغیر" گاڑی "کو چلانا چاہا۔ انہوں نے تعمیر شعور کا کام کیے بغیر عملی اقدا م سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی ٹھوس تعمیر کا کوئی کام نہ کر سکے ۔ اگر وہ ایسا کرتے کہ پہلے خاموش فکری جد و جہد کے ذریعہ لوگوں کا ذہن بناتے، اس کے بعد عملی اقدام کرتے تو یقیناً انھیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوتی ۔ ملت کی گاڑی بھی اسی طرح چل پڑتی جس طرح مذکورہ شخص کی گاڑی پٹرول بھرنے کے بعد چل پڑی ۔