رہبانیت
ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاٰتَيْنٰهُ الْاِنْجِيْلَ وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّرَحْمَةً ۭ وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَــتِهَا ۚ (الحديد 27:) پھر ہم نے ان کے نقش قدم پر اپنے رسول بھیجے اور انھیں کے نقش قدم پر عیسی بن مریم کو بھیجا اور ہم نے اس کو انجیل دی۔ اور جن لوگوں نے اس کی پیروی کی ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور رحمت رکھ دی۔ اور رہبانیت کو مسیحیوں نے خود نکالا، ہم نے اس کو ان پر نہیں لکھا تھا۔ ہم نے ان کے اوپر صرف اللہ کی رضا چاہنا فرض کیا تھا۔ پھر انھوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی۔
اس آیت میں رہبانیت سے مراد یہ ہے کہ آدمی خدا کے نام پر دنیا کو چھوڑ دے ۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات و ہی تھیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ مگر حضرت مسیح کے دوسو سال بعد ان کے پیرؤوں میں بگاڑآ گیا ۔ ان کا ایک طبقہ رہبانیت میں پڑ گیا ۔ وہ لوگ دنیا کو چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں چلے گئے اور دنیوی چیزوں سے بے تعلق ہو کر شدید قسم کی مشقت برداشت کرنےلگے۔ (تفصیل کے لیے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ، جلد 12، مقالہ (Monasticism)
ان کا یہ ترک ِدنیا مذہب کے معاملہ میں غلو اور تشدد سے پیدا ہوا۔ ان کو زہد کی تعلیم دی گئی تھی جس کا مطلب نفسیاتی زہد تھا۔ مگر انھوں نے نفسیاتی زہد کے علم کو جسمانی زہد کا حکم قرار دے لیا ۔ ان سے کہا گیا تھا کہ دنیا میں مشغول ہو مگر دنیا کو مطلوب و مقصود نہ بناؤ۔ مگر انھوں نےمطلوبیتِ دنیا کی نفی کو مشغولیتِ دنیا کی نفی کے ہم معنی سمجھ لیا۔ یہی ہے حکم خداوندی کی صحیح رعایت نہ کرنا۔
مومن انسانوں کے درمیان زندگی گزارتا ہے مگر اسکی توجہ خداکی طرف لگی رہتی ہے۔ وہ بظاہرمادی کام میں مشغول دکھائی دیتا ہے۔ مگر اس کا ذہن روحانی سطح پر سرگرم رہتا ہے ۔ وہ دنیا میں رہتے ہوئے ایک ایسا انسان بن جاتا ہے جو آخرت میں بسیرا لیے ہوئے ہو۔