مشکل میں آسانی
روایتی طرز کے کولھو میں جب گنّا ڈالا جاتا ہے تو اس میں دباؤ کم ہوتا ہے اور اس کے بیلن کے درمیان سے گنا صرف ایک بار گزارا جاتا ہے ۔ چنانچہ گنے کا رس تقریباً 25 فی صد نکلے بغیر اس کے اندر رہ جاتا ہے۔ بجلی سے چلنے والے کرشر (Crusher) میں نسبتاً زیادہ دباؤ ہوتا ہے اور گنے کو بیلن کے درمیان سے دو بار گزارا جاتا ہے۔ تاہم یہاں بھی تقریباً 15 فی صد رس اس سے نکل نہیں پاتا۔ بڑی بڑی ملوں میں بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے اور گنے کو چار بارمشینی بیلن کے درمیان سے گزارا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گنے کا تقریباًتمام رس اس سے باہر آجاتا ہے ۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ "دباؤ" کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جو چیزیں پیدا کی ہیں ، ان کے اندر تخلیقی طور پر بے حساب امکانات رکھ دیے ہیں۔ مگر کسی چیز کے اندر چھپا ہوا امکان صرف اس وقت نکل کر باہر آتا ہے جب کہ اس چیز پر دباؤ پڑے۔ دباؤ جتنا زیادہ شدید ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کے اندرونی امکانات باہر آئیں گے۔
یہی معاملہ انسان کا بھی ہے ۔ انسان کے اندر پیدائشی طور پر بے حساب امکانات موجود ہیں۔ ہر انسان امکانات کا ایک لامحدود خزانہ ہے معمول کے حالات میں یہ امکانات انسان کے اندر چھپے ہوئے پڑے رہتے ہیں۔ وہ صرف اس وقت ظاہر ہوتے ہیں جب کہ انسان دباؤ کا شکار ہو ۔ جب اس کی شخصیت کو نچوڑنے والے عمل سے گزارا جائے ۔ تاریخ میں جن لوگوں نے بھی کوئی بڑی ترقی کی ہے وہ وہی لوگ تھے جو اپنے ماحول میں دباؤ کے حالات سے دوچار ہوئے۔ جنھوں نے ان مع العسر یسرا کے تخلیقی رازکو جانا جنھوں نے زندگی کے میدان میں اس حوصلہ کے ساتھ قدم رکھا کہ وہ عسر کی زمین سے یسر کی فصل اگائیں گے۔
انسانی نگاہ مشکل کو مشکل کے روپ میں دیکھتی ہے۔ ربانی نگاہ وہ ہے جو مشکل کوآسانی کے روپ میں دیکھنے لگے ۔