قول و عمل کا تضاد
نئی دہلی میں 16 - 19 جنوری 1989 کو ایک انٹر نیشنل کانفرنس ہوئی جس میں دنیا بھر کے نمائندے اور دانشور جمع ہوئے۔ اس کا نفرنس کا موضوع تھا –––––– عالمی شہری کی تیاری :
The Making of an Earth Citizen
اس" عالمی شہری کا نفرنس" کا افتتاح ہندستان کے وزیر اعظم مسٹر راجیو گاندھی نے کیا تھا۔ و گیان بھون کے ایک ممتاز انٹر نیشنل اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے ایک ایسے نئے عالمی نظام کی تشکیل کرنے کی اپیل کی جس میں ہم سب علاقائی امتیازات سے بلند ہو کر آفاقی شہری بن جائیں ۔ کیوں کہ یہ کرۂ ارض کسی ایک قوم کے لیے نہیں، بلکہ یکساں طور پر ہر ایک کے لیے ہے ۔ عالمی شہریت کے اصول کو تسلیم نہ کرنے ہی کا نتیجہ وہ خطرناک تفریق اور امتیازات ہیں جو موجودہ دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اور اسی تقسیم کا یہ نتیجہ ہے کہ دنیا کی عظیم اکثریت اپنے جائزحصہ سے بھی محروم ہے ۔ ان مصنوعی فاصلوں کو ختم کرنے کے لیے جنہوں نے انسانی سماج کو مختلف امتیازات کی بنیاد پر تقسیم کر رکھا ہے ، ایک نیا آغاز بالکل ضروری ہے ۔ انھوں نے مسز اندراگاندھی کا یہ قول دہرایاکہ یہ دنیا ایک ہی کنبہ ہے۔( ٹائمس آف انڈیا ، ہندوستان ٹائمس 17 جنوری 1989)
ہندستان کے لیڈر انٹر نیشنل اسٹیج پر دنیا کے تمام لوگوں کو یکساں شہری حقوق دینے کا وعظ کہتے ہیں ، مگر خود اپنا ملک جہاں انھیں اقتدار حاصل ہے ، وہاں کے تمام باشندوں کو یکساں حقوق دینے کے لیے تیار نہیں۔ امتیاز پسند سماج کا حکمراں بن کر وہ بے امتیاز سماج قائم کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔
موجودہ زمانےکے مسلم رہنمابھی قول و عمل کے اسی تضاد میں مبتلا ہیں ۔ وہ عدل و انصاف پر تقریریں کرتے ہیں اور خود اپنی زندگی کو عدل و انصاف کی پابندی سے آزاد کیے ہوئے ہیں۔ وہ اسٹیج پر احتسابِ عالم کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص انھیں احتساب خویش کی یا ددہانی کرائے تو وہ اس کے دشمن بن جائیں گے۔