سفر نامہ
شام کو تمام شرکاء کو کابل کے باہر ایک کھلے مقام پر لے جایا گیا۔ یہاں "شہد ایٔ راہ انقلاب" کا بورڈ لگا ہوا تھا ۔ دور تک "اپریل انقلاب" میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی قبریں نظر آ رہی تھیں۔ یہاں مخصوص فوجی آداب کے ساتھ "شہداء " کو پھول (Wreath) چڑھایا گیا۔ میرے لیے یہ منظر نیا تھا۔ مجھے کسی شخص کا یہ قول یاد آیا کہ حکومت کے خلاف مسلح اقدام اگر کامیاب نہ ہو تو وہ بغاوت ہے ، اگر کامیاب ہو جائے تو وہ انقلاب ہے۔
22 اکتوبر کی صبح کو کانفرنس کا افتتاح ہوا ۔ ڈاکٹر نجیب (رئیس جمہوریہ ٔافغانستان )اور دوسرے اعلیٰ حکومتی ذمہ دار اسٹیج پر موجود تھے۔ کارروائی کا آغاز ایک نابیناقاری کی تلاوت سے ہوا ۔ انھوں نےسورہ احزاب کا وہ حصہ پڑھا جس میں یہ آیت ہے : وَيَخْشَوْنَهٗ وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ ( الأحزاب: 39)۔ میں نے سوچا کہ اگر بالفرض آج کوئی نئی کتاب اترے اس میں مذکورہ الفاظ ہوں اور ان کو لے کر کوئی شخص ایک ایسے اجتماع میں ان کی تلاوت کرنے لگے جہاں وقت کے حکمراں لوگ بیٹھے ہوئے ہوں تو شاید اس کو نکال کر باہر کر دیا جائے گا۔ مگر قاری اس قسم کی آیت ،قرآن سے پڑھتا ہے تو کسی کے اندر کوئی جنبش نہیں ہوتی ۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ نیا پیغمبر اس کو زندہ پیغام کے طور پر پڑھے گا ، اور نابینا قاری اس کو صرف ایک روایتی قرأت کے طور پر اس کا ترنم کر رہا ہے۔
22 اکتوبر کی شام سے مقالات کا سلسلہ شروع ہوا جو 23 اکتوبر کی شام تک جاری رہا۔ میں نےجو مقالہ پیش کیا ، اس کا عنوان یہ تھا :
The Prophet of Islam: Benefactor of Humanity
یہ مقالہ ان شاء اللہ انگریزی الرسالہ میں شائع کر دیا جائے گا۔
22 اکتوبر کو یہاں کے ٹیلی وژن والوں نے انٹرویو لیا ۔ اپنے مرکز کے تعارف کے بعد میں نے دو باتیں کہیں ۔ ایک یہ کہ میرے نزدیک اسلام کا مطلب ہے آخرت اور ینیٹڈ لائف ۔ دوسری بات میں نےوہی کہی جو الرسالہ میں بار بار آتی ہے۔ یعنی تصادم کو اوائڈ کرتے ہوئے ممکن دائرہ ٔعمل میں اپنا کام کرنا۔اس سلسلے میں میں نے مزید کہا کہ یہ باتیں میں خاص طور پر افغانستان کے پس منظر میں نہیں کہہ رہا ہوں ۔ یہ میرا مستقل پیغام ہے جس کی میں پچھلے 30 سال سے برابر تبلیغ کر رہا ہوں ۔
یہ اللہ کا فضل ہے کہ میں غالباً ہندستان کا اکیلا شخص ہوں جو ملک کے اندر اور ملک کے باہر ہر جگہ ایک ہی بات کہتا ہے ۔ ورنہ میری معلومات کے مطابق ، ہندستان کے تمام علما اور قائدین اس معاملے میں ذو الوجہین ہو رہے ہیں۔ وہ ہندستان میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر تصادم اور ایجی ٹیشن کی بات کرتے ہیں، اور جیسے ہی وہ کسی مسلم ملک کے ہوائی اڈہ پر اترتے ہیں ان کی زبان بالکل بدل جاتی ہے ۔ یہ لوگ باہر کے مسلم ملکوں میں جو بات کہتے ہیں، وہی میں دونوں جگہ کہتا ہوں ۔ البتہ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ باہر کے مسلم ملکوں کے لیے ان کا ٹیپ دوسرا ہے اور ہندستان کے لیے دوسرا۔
کابل سے ایک فارسی روزنامہ ہیواد نکلتا ہے۔ اس نے اپنے شمارہ 23 اکتوبر 1988 میں میرا انٹرویو شائع کیا۔ اس کے علاوہ ایک فلسطینی جو اسپین میں رہتے ہیں اور اسپینی زبان بخوبی جانتے ہیں، انھوں نے بھی ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں انٹرویو لیا۔ اس کو وہ اسپین کے بعض اخبارات میں شائع کریں گے۔ وہ اسپین ریڈیو میں کام کرتے ہیں اور بعض اسپینی اخبارات کے نامہ نگار ہیں۔ ان کا نام سعید عَلَمی ہے اور وہ میڈرڈ میں رہتے ہیں۔
سعید عَلَمی صاحب نے اسپین میں اسلام کا حال بتاتے ہوئے کہا کہ وہاں اسلام کی تبلیغ کے مواقع ہیں ۔ کیوں کہ موجودہ نظام کے تحت وہاں ہر مذہب کو آزادی حاصل ہے ۔ مگر اصل مشکل یہ ہے کہ اسپینی زبان میں اسلامی لٹریچر موجود نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ قرآن کا اسپینی ترجمہ کسی مسلمان کے ہاتھ کا کیا ہواموجود نہیں۔ البتہ ایک ترجمہ ہے اور وہ اسپین کے مسیحی کا کیا ہوا ہے :
لا يوجد في أسبانيا قرآن مترجم إلى الاسبانية على يد مسلمين۔ ولكن يوجد مترجما على يد مسيحى اسبان۔
ایک صاحب نے پیغمبر اسلام کی عظمت پر مقالہ پیش کیا ۔ آپ ﷺکے ذریعہ دنیا میں اصلاح اورانقلاب کا جو دور آیا، اس کے متعلق انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ تمام نبیوں سے افضل تھے۔ آپ کا دین دوسرے تمام دینوں کے مقابلہ میں مکمل تھا ۔ وغیرہ ۔ میں نے ان کے مقالہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بطور واقعہ درست ہے کہ پیغمبر اسلام کے ذریعہ دنیا میں عظیم ترین اصلاحی انقلاب آیا۔ مگر اس کی وجہ افضلیت اور اکملیت نہ تھی جس کو آپ نے بیان فرمایا ہے۔ یہ نتیجۂ توحید تھا نہ کہ نتیجۂ اکملیت۔
اصل یہ ہے کہ یہ تمام ترقیاں "توحید" کا نتیجہ ہیں ۔ توحید ہی ہر قسم کی اصلاح و ترقی کا اصل سرچشمہ ہے۔ پہلے دور میں جو انبیاء آئے ان کا دین بھی توحید کا دین تھا۔ انھوں نے بھی اسی توحید کی دعوت دی جس کی دعوت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔ مگر دونوں میں جو فرق ہے وہ یہ کہ پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں توحید کی دعوت صرف فکری اور نظریاتی مرحلے میں رہی ، وہ عملی انقلاب کے مرحلے تک نہیں پہنچی ۔ چنانچہ توحید کی تبلیغ کے باوجود توحید کے عملی نتائج ظہور میں نہیں آرہے تھے۔ پیغمبر اسلام نے دعوت ِتوحید کو انقلابِ توحید تک پہنچا دیا۔ جب ایسا ہو ا تو انسان کو اس کے نتائج ملنا شروع ہو گئے جن سے وہ اب تک محروم تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام اور دوسرے پیغمبروں کے درمیان جو فرق ہے وہ نفس دین کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ دین کے اظہار کے اعتبار سے ہے۔
ایک صاحب نے سیاسی انداز میں تقریر کی۔ ان کی تقریر کا خاص نشانہ امریکہ تھا۔ اپنی پر جوش تقریر میں وہ ظالم امریکہ ، مردود امریکہ اور شیطان امریکہ جیسے الفاظ بے تکلف استعمال کر رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل جس کے وسیع ہال میں یہ تقریر ہورہی ہے، وہ ایک امریکی کمپنی کا بنوایا ہوا ہے اور اسی کی ملکیت ہے۔ افغانستان کے پاس سارے ملک میں دوسرا کوئی ہوٹل یا ہال نہیں جہاں ایک بین اقوامی سطح کی سیرت کانفرنس شایان شان طور پر کی جاسکے۔ ایسی حالت میں امریکہ کو برابھلا کہنا کس قدر مضحکہ خیز ہے۔ جس امریکہ کے نفوذ کا یہ حال ہو کہ اس کو گالی دینے میں جو پیسہ خرچ ہو وہ بھی اسی کی جیب میں جائے ، ایسے امریکہ کا مقابلہ عمل کے اسٹیج پر کیا جا سکتا ہے نہ کہ کسی قسم کے لفظی اسٹیج پر ۔
ایک بڑے کمرہ میں افغانستان کی اسلامی مطبوعات کی نمائش کی گئی تھی۔ بڑی تعداد میں مختلف موضوعات پر کتا بیں موجود تھیں ۔ ایک کتاب کا نام تھا: نقش علماء اور دعوت بہ صلح۔ اس کے " نویسنده " ڈاکٹر عبد الغفور باہر تھے۔ اس کتاب کا موضوع تھا ، صلح کی دعوت میں علماء کا رول ۔ اس کو عربی میں کہہ سکتے ہیں : دورالعلماء في الدعوة إلى السلم اس کتاب کا پہلا جملہ یہ تھا کہ یہ واضح بات ہے کہ اسلام کی دعوت عالمی دعوت ہے اور دنیا میں رحمت لانے کے لیے ہے ( واضح است کہ دعوت اسلام دعوت جهانی و تامین رحمت است)
یہاں مختلف ملکوں کے لوگ آئے ہوئے تھے۔ جولوگ عربی یا انگریزی زبان جانتے تھے ، ان سے گفتگو کرنا آسان تھا ۔ مگر جو لوگ صرف اپنی مقامی زبان جانتے تھے ، ان سے براہ راست ربط قائم نہیں جا سکتا تھا۔ ایک موقع پر میرے ساتھ اسی قسم کی "بے بسی " پیش آئی۔ اس تجربے کے موقع پر بے اختیار مجھے آخرت کی دنیا یاد آگئی۔ میری زبان سے نکلا : آخرت کی دنیا کیسی عجیب دنیا ہوگی۔ وہاں تمام انسانوں سے ایک زبان میں کلام کرنا ممکن ہو گا۔ وہاں تمام انسانوں کی سطح ایک ہو جائے گی۔ وہاں ہر آدمی حقیقت کو ماننے پر مجبور ہوگا۔ وہاں کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ وہ دھواں بکھیر کر فضا کو آلودہ کر ے۔ وہاں کسی کو یہ قدرت نہ ہوگی کہ وہ ظلم اور جبر کے ذریعہ اقتدار پر قابض ہو جائے اور پھر اپنی ذات کو بچانے کی خاطر سارے معاملات کو تہس نہس کر ڈالے۔ وہاں کسی کو یہ موقع نہ ہو گا کہ جھوٹ اور استحصال کی بنیاد پر لیڈر بن جائے ۔
آخرت کی دنیا میں ہر چیز اپنی اصل تخلیقی حالت پر ہوگی ۔ وہاں ہر آدمی کو اس حد پر ٹھہرنے کے لیے مجبور کر دیا جائے گا جو اس کی واقعی حد ہے ۔ وہاں ہر قسم کا مصنوعی فرق مٹ چکا ہو گا۔ موجودہ دنیا اگر انسانی دنیا ہے تو وہ ربانی دنیا ہو گی ۔ کیسی عجیب ہو گی یہ آنے والی دنیا ، اور کیسے خوش نصیب ہوں گے وہ لوگ جواس معیاری دنیا میں آبادکاری کے لیے منتخب کیے جائیں۔
کا نفرنس کی کارروائی کل شام کو ختم ہوگئی۔ اگلی صبح کو میں کابل کے ہوٹل انٹر کانٹی ننٹل (روم 328) میں میز کے سامنے بیٹھا ہوں ۔ سورج کی روشنی دیواری شیشہ سے گزر کر کمرہ میں آرہی ہے۔ ذہن میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا نقشہ گھوم رہا ہے ۔ اچانک مجھے فارسی کا یہ شعر یاد آیا :
خانۂ شرع خراب است کہ ارباب صلاح در عمارت گریٔ گنبد اسلاف خود اند
میں نے سوچا کہ موجودہ زمانےکا نصف حصہ اگر " گنبد اسلاف "کی تعمیر میں مشغول ہے تو بقیہ نصف حصہ " گنبد خویش" کی تعمیر میں۔ جہاں تک "خانۂ شریعت "کی تعمیر کا تعلق ہے، اس سے حقیقی طور پر کسی کو بھی کوئی دلچسپی نہیں ۔ یہ سوچتے ہوئے ایک تاثر طاری ہوا جو ان لفظوں میں ڈھل گیا : اپنے کو اسلامی ظاہر کرنے کے لیے ہر شخص دوڑ رہا ہے، مگر اپنے کو اسلامی بنانے سے کسی کو دل چسپی نہیں ۔ اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے ہر آدمی بے قرار ہے، مگر اسلام کی خاطر اپنا جھنڈہ اگر انے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ اسلام کے گنبد پر ہر شخص کھڑا ہونا چا ہتا ہے، مگر اسلام کی بنیاد میں دفن ہونا کسی کو گوارا نہیں ––––– کیسا عجیب ہے وہ اسلام جو سب کچھ ہو مگر اسلام ہی نہ ہو ۔
ایک افغانی نوجوان جس نے بی اے کے مرحلہ تک تعلیم حاصل کی ہے ، اس سے میں نے پوچھا کہ افغانستان میں ایسے لوگ کتنے ہوں گے جنھوں نے بی اے کیا ہو۔ اس کا جواب تھا کہ سو میں ایک۔ یہی افغانی قوم کی اصل کمزوری ہے ۔ وہ بے حد بہادر قوم ہیں۔ مگر بہادری میں وہ جتنا آگے ہیں، تعلیم میں وہ اتنا ہی پیچھے ہیں ۔ وہ لوگ جن کو "افغانی مجاہدین" کہا جاتا ہے ، وہ ایک درجن تنظیموں میں بٹے ہوتے ہیں ،تاہم ایک چیز سب میں مشترک ہے ۔ وہ یہ کہ ان کی اکثریت تعلیم یافتہ نہیں ۔
غیرتعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے افغانی مجاہدین ایک بات کو جانتے ہیں ، مگر وہ دوسری اہم تر بات کو نہیں جانتے ۔ وہ اس بات کو مبالغہ آمیز حد تک جانتے ہیں کہ ان کی شجاعت نے روسی فوجوں کو واپسی پر مجبور کیا ہے ۔ مگر وہ اس تاریخی حقیقت سے سرے سے نا واقف ہیں کہ روسی فوجوں کی افغانستان سے واپسی در اصل ایک دور کا خاتمہ ہے۔ یہ ویسا ہی معاملہ ہے جیسے مہاتما گاندھی کی تحریک آزادی نے انگریزوں کو ہندستان سے نکلنے پر مجبور کیا۔ مگر انگریزوں کا یہاں سے نکلنا اسی کے ساتھ اس بات کا اعلان بھی تھا کہ اب قدیم طرز کانو آبادیاتی دور (Colonial age) ختم ہو چکا ہے۔ اب وہ دوبارہ واپس آنے والا نہیں۔
مجاہدین میں اگر کچھ ایسے لوگ ہوتے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے اور وقت کی رفتار کو گہرائی کے ساتھ سمجھتے تو وہ جان لیتے کہ روسی فوجوں کی واپسی سادہ طور پر صرف واپسی نہیں ہے ، یہ اس دور کا خاتمہ ہے جس میں روسی طرز کا تد خل ممکن ہوتا تھا ۔ اگر افغانی مجاہدین اس راز کو جانتے تو ان کا طرز کار بالکل بدل جاتا۔ ہتھیار کی طاقت سے انھوں نے خارجی حریف کو زیر کیا تھا ، امن کی طاقت سے وہ داخلی حریف پر قابو پالیتے۔
کابل سے انگریزی کا صرف ایک اخبار نکلتا ہے جس کا نام " کابل ٹائمس" ہے۔ البتہ فارسی (دری) میں بہت سے اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ اخبار انیس ( 10 ربیع الاول 1409 ) کے ایڈیٹوریل کا عنوان تھا: محمدﷺ مصلح کبیر وانسان دوست بزرگ ۔ اس میں مولوی عبدالشکور (خطیب مسجد جامع باغ بالا ) کی ایک تقریر کی رپورٹ تھی۔ اس خبر کا عنوان یہ تھا ––––––– "ما صلح را پیش کش می کنیم " ۔ خبر کے مطابق انھوں نے کہا : روایت است در جنگ حدیبیہ با وجو دیکہ شرایط گرانی را با لای محمد ﷺ قبول دار گردیدند ، آنحضرت صلح را ترجیح داد ۔ زیرا می دانست کہ یک طرف مشرکین از جملہ اقوام او می باشند ، و طرف دیگر یاران ہمر کا بش، پس صلح حدیبیہ را بہ خاطر قطع جنگ و خون ریزی قبول دار شد۔
برادر کشی کے خاتمہ کے لیے (برائے ختم برادر کشی ) افغان مجاہدین سے صلح کی پیش کش کی مزیدتفصیل مجھے امریکی میگزین ٹائم (24 اکتوبر 1988 ) سے ملی ۔
ٹائم (24 اکتوبر 1988 ) نے لکھا ہے کہ افغانستان میں اس وقت 35 سالہ احمد شاہ مسعود کو " شیر پنج شیر" کی حیثیت حاصل ہے ۔ اس افغانی نوجوان نے کابل کے پالی ٹکنیک انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ پچھلے تقریباً دس سال سے وہ مجاھدین کا استاد بنا ہوا ہے۔ اس کا تعلق افغانستان کی اسلامی جماعت سے ہے۔
ٹائم نے اس سلسلےمیں بتایا ہے کہ نو سال کی جنگ کے بعد افغانستان کی وادی خالی بستیوں اور بر باد مکانات کا نمونہ بنی ہوئی ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت جنگ بندی یا مخلوط حکومت تک پر راضی نظر آتی ہے ۔ صدر نجیب اللہ جو اس وقت مایوسی کا شکار ہیں ، کیونکہ ان کا حامی روس واپس جا رہا ہے ۔ حال میں انھوں نے مسعود کو یہ پیش کش کی کہ امن قائم کرنے کے بدلے وہ حکومت میں کوئی بڑا عہدہ قبول کرلیں :
(President Najibullah recently offered Massoud a choice of top government posts in exchange for peace (p.10).
ٹائم کے بیان کے مطابق، احمد شاہ مسعود نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ وہ موجودہ حکومت کی بے دخلی سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہیں۔ میرے نزدیک یہ عین وہی غلطی ہے جو اس سے پہلے سید قطب اور سید ابو الاعلیٰ مودودی کر چکے ہیں۔ سید قطب کو جمال عبد الناصر نے مصر کی وزارتِ تعلیم کی پیش کش کی۔ مگر سید قطب کو اس سے کم کوئی چیز قبول نہ تھی کہ جمال عبد الناصر کرسیٔ اقتدار سے ہٹ جائیں۔ اسی طرح سید ابو الاعلیٰ مودودی کو محمد ایوب خاں نے یہ پیش کش کی کہ حکومت انھیں اعلی ترین وسائل دے گی ، وہ ایک انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی قائم کریں اور اس میں اپنی صلاحیتیں لگا دیں۔ مگر دوبارہ سید ابو الاعلیٰ مودودی اس سے کم کسی بات پر راضی نہ ہو سکے کہ محمد ایوب خان کرسیٔ اقتدار سے ہٹ جائیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں رہنما مصر اور پاکستان میں ممکن تعمیری کام نہ کر سکے، وہ صرف بر بادی کی تاریخ چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے۔ افغانی مجاہدین نے اگر اپنے رخ میں تبدیلی پیدا نہ کی تو یقینی ہے کہ وہ بھی اس دنیا سے اس حال میں جائیں گے کہ ان کے پیچھے ایک بر باد شدہ افغانستان کے سوا اور کوئی چیز موجود نہ ہو گی۔ اور اس دنیا سے بہر حال ہر ایک کو جانا ہے ۔
افغانی مجاہدین کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ انھوں نے ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیاہے ۔ انھوں نے اپنی غیر معمولی قربانی سے 1988 میں افغانستان میں اس تاریخی عمل کو تکمیل کے مرحلہ تک پہنچایاہے جو 1973 میں ویت نام میں شروع ہو اتھا۔ ویت نام کو امریکہ نے طاقت کے ذریعہ مسخر کرنا چاہا۔ مگرویت نامیوں کی ناقابل تسخیر مزاحمت نے امریکہ کو 1973 میں وہاں سے لوٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ کوئی قوم خواہ عسکری طاقت میں "سپر پاور" کا درجہ حاصل کرلے وہ محض طاقت کے بل پر کسی قوم کو زیرنہیں کر سکتی۔
اس کے بعد ٹھیک اسی عمل کو سوویت روس نے افغانستان میں دہرایا۔ بعض داخلی اسباب نےاس کو موقع دیا اور اس نے اپنی دیرینہ خواہش کے تحت افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر دیں ۔ مگر یہ اقدام ان کے لیے بے حد مہنگا پڑا یہاں تک کہ 1988 میں انھوں نے افغانستان سے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح اب یہ بات آخری طور پر ثابت ہو گئی کہ بین اقوامی معاملات میں طاقت کو پہلا فیصلہ کن مقام حاصل نہیں۔
افغانستان کی موجودہ سیاست بے حد مخدوش ہے ۔ روس اگر چہ اپنی فوجوں کو واپس بلا رہا ہےتاہم وہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں ایسی حکومت قائم ہو جو کمیونسٹ نواز ہو یا کم از کم اینٹی کمیونسٹ نہ ہو۔ دوسری طرف"مجاہدین " کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں سوویت روس کے کسی بھی اثر و نفوذ کو گوارا کرنے کےلیے تیار نہیں۔ امریکہ اور پاکستان اس مطالبہ کی تائید کر رہے ہیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ "مجاہدین"کی جو حکومت ہوگی وہ امریکہ نواز یا پاکستان نواز ہو گی۔
اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ "مجاہدین" کی بندوقوں کا رخ جو پہلے روسیوں کی طرف تھا ، اب وہ حکمراں افغانی گروہ کی طرف ہو گیا ہے، کیونکہ ان کے متعلق ان کا خیال ہے کہ وہ روسی پالیسی کی حمایت کر رہے ہیں۔
ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ اس مسئلہ کا حل خوش تدبیری اور ایڈ جسٹمنٹ ہے۔ مگر بظاہر ایسا ہونا ناممکن ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پچھلے دس سال سے مجاہدین کے غیر مصالحانہ تشددکو سارے عالم اسلام میں جس طرح گلو ریفائی کیا گیا ہے اور جس طرح ان کو ہیرو بنایا گیا ہے ، اس کےبعد ایڈ جسٹمنٹ کی پالیسی ان کے لیے ہیرو کے مقام سے اترنے کے ہم معنی ہوگی۔ اور انسان کے لیے بلاشبہ یہ مشکل ترین کام ہے۔ مجھے اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ اگر بالفرض روسی اثر و نفوذ افغانستان سےختم ہو جائے تب بھی اصل مسئلہ ختم ہونے والا نہیں ۔ کیونکہ عدم ِبرداشت کا مزاج جو اس وقت روسیوں یا روس نوازوں کے خلاف کام کر رہا ہے وہی خود اپنوں کے خلاف کام کرنے لگے گا۔ اس دنیا میں کامیابی کا راز برداشت ہے ، دوسروں کے مقابلہ میں بھی اور خود اپنوں کے مقابلہ میں بھی۔
اس سلسلہ میں لینن کی مثال بہت سبق آموز ہے ۔ روس میں زار کے زوال کے بعد 15 مارچ 1917 کو پہلی پراوژنل گورنمنٹ بنی ۔ اس میں لینن کی حیثیت صرف اقلیتی ممبر کی تھی ۔ اس کا وزیر اعظم شاہی خاندان کے جارجی لووف (Prince Georgy Lvov) کو بنا یا گیا تھا۔ اس کے بعد الیگزینڈر کرنسکی (Aleksander Kerensky) کو ایک اہم وزیر کی حیثیت سے اس میں نمبر 2 کی حیثیت حاصل تھی لینن کی حیثیت یہ تھی کہ وہ بالشویک پارٹی کا ممبر تھا جو اس وقت کی اسمبلی (Soviets) میں ایک اقلیتی گروپ (تہائی کی تعداد ) رکھتی تھی۔
مگر لینن نے انتہائی گہری تدبیروں کے ساتھ اولاً حریف پارٹی کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اوراس کے بعد گہری تدبیروں کے ذریعہ 6 نومبر 1917 کو ماسکو کی پوری حکومت اپنے قبضہ میں کرلی۔ لینن ابتدا ء ً کمتر پر راضی ہوا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج اس کا ملک دو بڑی طاقتوں میں سے ایک بڑی طاقت کی حیثیت رکھتا ہے ۔ افغانی مجاہدین "کمتر " پر راضی ہونے کے لیے تیار نہیں اس لیے مجھےامید نہیں کہ وہ کبھی برتر کو پانے میں کامیاب ہو سکیں گے (68/16EB )
افغانستان میں اگر آپ افغانی مجاہدین سے ملیں تو وہ کہیں گے کہ اسلام "دین جہاد "ہے۔ اس کے برعکس کابل کے حکمراں طبقہ سے میں تو وہ کہیں تھے کہ اسلام "دین صلح "ہے۔ بظاہر دونوں اسلام کا لفظ بول رہے ہیں۔ مگر حقیقتاً دونوں کا مقصد ایک ہے۔ اسلام کو اپنی پالیسی کی تائید کے لیے استعمال کرنا۔افغان مجاہدین کے لیے جہاد کی آیتیں مفید ہیں اس لیے وہ جہاد کی آیتوں کے حوالے دیتے ہیں۔ اس کے برعکس حکمراں طبقہ کے لیے صلح کی آیتیں مفید مطلب ہیں اس لیے وہ صلح کی آیتوں کی تلاوت کر رہے ہیں۔
آبزرور (Observer) کے نمائندہ مسٹر آرتھر کینٹ (Arthur Kent) نے افغانستان کے اندرونی علاقوں کا سفر کیا۔ اس سلسلے میں وہ قندھار گئے۔ اپنے مشاہدات کے بعد انھوں نے جو رپورٹ مرتب کی ، اس کو ٹائمس آف انڈیا (13 اکتوبر 1988) نے نقل کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ افغانستان کے سر سبز علاقے اجڑے ہوئے صحرا کا منظر پیش کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ تمام بربادیوں کے با وجو د افغانستان کا مستقبل غیر یقینی ہے، کیونکہ مجاہدین سات گروپ میں بٹے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے مستقبل کے نقشہ کے بارے میں ان کے درمیان اتفاق نہیں ۔ افغانی مجاہدین کے پاس "پولٹیکل لیڈر شپ" نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نےقندھار کے ملا نقیب اللہ سے گفتگو کی ۔ آرتھر کنٹ کی رپورٹ کے مطابق ان کا جواب یہ تھا :
When Najib is gone, we will have a council so that all Afghans can decide who should lead.
صدر نجیب اللہ کے چلے جانے کےبعد ہم ایک کونسل بنائیں گئے تاکہ تمام افغانی مل کر یہ فیصلہ کریں کہ کون ملک پر حکومت کرے –––––––– جہاں دور جدو جہد میں اتحاد نہ ہو ، وہاں دور اقتدار میں اتحاد اور بھی زیادہ ناممکن ہو جاتا ہے ، مگر افغانی لیڈروں کو اس کی خبر نہیں۔
ٹائم (24 اکتوبر 1988) کی تین صفحہ کی باتصویر رپورٹ میں ایک بات یہ بتائی گئی ہے کہ روسیوں کے بیان کے مطابق ، ان کے 312 فوجی گم ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ روسی فوجی ہیں جن کو مجاہدین نے گرفتار کر لیا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو از خود بھاگ کر آنے والے (Defectors) ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ٹائم کے نامہ نگار ٹی اے ڈیوس (T.A. Davis) نے خود سفر کے دوران دیکھا ہے۔ ٹائم کا بیان ہے کہ ان روسی فوجیوں میں سے کچھ وہ ہیں جنھوں نے اسلام قبول کر لیا ہے جو مجاہدین کا مذہب ہے اور خود ان کے سابق باپ دادا کا بھی :
Others are converts who have embraced Islam, the religion of their captors and, for many Asian Soviets, of their parents as well (p.12).
روس کا انخلاء اگر چہ ابھی افغانستان سے مکمل نہیں ہوا ہے۔ تاہم عملی صورت حال میں اب بنیادی فرق پیدا ہو چکا ہے۔ پہلے افغانی مجاہدین کے تشدد کا نشانہ زیادہ تر روسی فوجیں بنتی تھیں ۔ اب ان کے تشدد کا نشانہ خود ان کی اپنی قوم بن رہی ہے ۔ پہلے وہ روسیوں کو مارتے تھے ، اب وہ "روس حامی افغانیوں" کو مار رہے ہیں۔ مگر اس کو خواہ جو نام بھی دیا جائے، تاہم عملی واقعہ یہی ہے کہ پہلے اگر روس کا خاندان اپنے بیٹوں سے محروم ہو رہا تھا تو اب افغانی خاندان اپنے بیٹوں اور جوانوں سے محروم ہو رہا ہے پہلے اگر روسی ٹینک تباہ ہوتے تھے ، تو اب خود افغانیوں کے کھیت اور باغ اور مکان تباہ ہو رہے ہیں۔
دہلی میں جو لوگ پالم کے علاقے میں یا اس کے قریب رہتے ہیں ، ان کے لیے سر پر گھڑ گھڑاتے ہوئےہوائی جہازوں کی آوازیں روزانہ کا معمول ہیں۔ کابل میں پورے شہر کا یہی حال ہے۔ ہوائی اڈہ پر اترنے کے بعد سے لے کر پورے زمانۂ قیام تک رات دن یہ حال تھا کہ فضا میں ہوائی جہاز اڑتےہوئے دکھائی دیتے تھے۔ تاہم دہلی اور کابل میں ایک فرق ہے ۔ دہلی کی فضا میں اڑنے والے جہا زمسا فر جہاز ہوتے ہیں اور کابل کی فضا میں اڑنے والے جہاز جنگی جہاز۔ ایک افغانی سے میں نے اس کا ذکر کیا تو اس نے مسکرا کر کہا:
You know, we are at war.
مجھے یہ جاننے کی خواہش تھی کہ وہ لوگ جن کو باہر کی دنیا میں "مجاہدین " کہا جاتا ہے ، ان کو افغانستان کے لوگ کیا کہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے میں نے ایک نوجوان (24 سال) کو لیا۔ ان سے میں نے ایسے موقع پر گفتگو کی جب کہ وہاں کوئی ہماری گفتگو کوسننے والا موجود نہ تھا۔ میرے سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ یہاں ان کو مجاہدین تو کوئی نہیں کہتا۔ البتہ یہاں کے لوگوں میں ان کے لیے عام طور پر تین الفاظ رائج ہیں :
اپوزیشن ، افراطیون ، اشرار
روس- افغانستان جنگ پر ایک معلوماتی فلم بنائی گئی ہے۔ یہ فلم 4 اکتوبر 1988 کو بی بی سی ٹیلیویژن پر دکھائی گئی ۔ اس فلم میں افغانی فوجیوں کے مکالمات ہیں۔ اسی کے ساتھ اس میں روسی فوجیوں کے تاثرات بھی ان کی اپنی زبان میں دکھائے گئے ہیں۔ اس کے مطابق ، ایک روسی جنرل نے کہا کہ مستقبل میں اگر کبھی سوویت یونین کو کوئی بین اقوامی مسئلہ طاقت کے ذریعہ حل کرنا پڑا تو وہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے سو بار اس پر غور کرے گا۔
روسی جنرل نے مزید کہا کہ پچھلے دس سال کی اس جنگ میں بے شمار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ روس کے ایک اور فوجی افسر نے اپنے خیالات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ خالصتاً ایک سیاسی غلطی تھی ، اوراس غلطی کے تمام تر ذمہ دار سابق روسی وزیر اعظم لیونڈ برژنیف ہیں –––––– برژنیف اگر زندہ ہوتے تو اس سنگین حقیقت کا انکشاف نہیں ہو سکتا تھا ۔ تمام بڑی بڑی سیاسی غلطیاں صرف اس وقت کھلتی ہیں جب کہ ان کا ارتکاب کرنے والے لیڈر مر جائیں یا وہ اقتدار کی کرسی سے ہٹ چکے ہوں۔
روانگی سے پہلے دہلی میں مجھے سرینگر کا ایک ہفتہ وار اخبار ( 7 اکتوبر 1988) ملا۔ اس میں افغانستان سے متعلق ایک مضمون تھا۔ نصف صفحہ میں اصل مضمون تھا ۔ اور بقیہ نصف میں حسبِ ذیل سرخی جلی حرفوں میں درج تھی : "اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے افغان مجاہدین کی جدو جہد فیصلہ کن مرحلہ میں"اس میں افغان نوجوانوں کی تصویریں تھیں۔ ایک تصویر میں کچھ افغانی نوجوان ایک تختی لٹکائے ہوئے تھے جس پرانگریزی میں لکھا ہوا تھا –––– قرآن زنده باد (Long live Qur'an)
خدا کو عرب میں" اسلامی حکومت" قائم کرنے کے لیے ڈھائی ہزار سالہ منصوبہ بنانا پڑا۔ مگر موجودہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کے تمام اصاغرو ا کا بر ڈھائی دن سے بھی کم عرصہ میں اسلامی حکومت کا قلعہ کھڑا کرنے کا کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ موجودہ مسلمان سیاست کے معاملے میں اس قدر مضحکہ خیز حد تک جذباتی کیوں ہیں ۔ اس کی وجہ میری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ موجودہ لیڈروں نے تقریباً بلا استثناء یہ کیا کہ مسلمانوں کو دوبارہ اٹھانے کے لیے ایک یا دوسری شکل میں سیاسی لوریاں سنائیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی حساسیت سیاست کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ جاگ اٹھی ۔ 1912 میں جب مصطفی کمال اتا ترک یونانی فوجیوں کوپسپا کر کے وقتی طور پر سمرنا میں داخل ہو گئے تو برصغیر ہند میں" سمرنا بہار" آگئی ۔ اشعار اور مضامین اورتقریروں کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ اس کا خلاصہ ایک شعر میں یہ ہے :
وہ پہنچا پرچم اسلام پھر ارض سمرنا میں
مگرسمرناکی فتح کوفتحِ اسلام سمجھنا جتنا بے معنی تھا ، افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کو فتح اسلام سمجھنا بھی اتنا ہی بے بنیاد ہے۔ مگر اقتدار کے لیے مسلمانوں کی جوش ِتمنا اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ ہر لکڑی پر فتح اسلام کا جھنڈا باندھ دینا چاہتے ہیں ، خواہ اگلے لمحہ حالات کا طوفان اس جھنڈے کو گرا کر گہری خندق میں کیوں نہ ڈال دے۔
ایک صاحب سے موجودہ زمانے میں مختلف قوموں کے باہمی جھگڑوں کا ذکر ہوا۔ میں نے کہاکہ یہ جھگڑے زیادہ تر سیاسی جھگڑے کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کےدرمیان" پختون " علاقے کے لیے جھگڑا ۔ ایران اور عراق کے درمیان شط العرب کے لیے جھگڑا ۔پاکستان اور ہندستان کے درمیان کشمیر کے لیے جھگڑا۔ وغیرہ ۔ کوئی قوم اس کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کو بر وقت جو کچھ حاصل ہے اس پر قانع ہو کر اپنی تعمیر کا کام کرے۔ ہر قوم اس چیز کے لیے لڑرہی ہے جو اس کو حاصل نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ غیر حاصل شدہ کے پیچھے دوڑنے میں حاصل شدہ بھی برباد ہو رہا ہے۔
ایک صاحب اخوانی مزاج کے تھے ۔ انھوں نے انقلابی اسلام والی باتیں کیں۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں تمام مسلم ممالک کا یہ حال ہے کہ وہاں کا حکمراں طبقہ ایک یا دوسری مغربی طاقت کا ایجنٹ بنا ہوا ہے۔ ان مسلم حکمرانوں سے لڑ کر جب تک ان کا خاتمہ نہ کیا جائے ، اسلام کو قائم اور غالب نہیں کیا جا سکتا۔
میں نے کہا کہ یہ مسئلہ اسلام کا نہیں ، بلکہ آپ کی مفروضہ تفسیرِ اسلام کا ہے ۔ آپ لوگوں نے خود ساختہ تفسیر کی بنا پر یہ سمجھ لیا ہے کہ اسلامی دعوت کا اصل کام اسلام کو ایک قانونی نظام کی حیثیت سے نافذ کرنا ہے ، اور چوں کہ موجودہ زمانے کے مسلم حکمراں اس قسم کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ ہیں ، اس لیے پہلا کام یہ ہے کہ ان سے لڑ کر نفاذ اسلام کی راہ ہموار کی جائے ۔
میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں حکومت پیش کی گئی مگر آپ نے اس کو قبول نہیں فرمایا۔ اگر اصل مقصد اقتدار ہوتا تو آپ فوراً اس کو قبول کر لیتے اور اس کے بعد ڈنڈے کے زور پر اسلامی قانون نافذ فرماتے ، جیسا کہ موجودہ زمانے کے بعض نام نہاد مجاہدینِ اسلام کر نا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی دعوت کا نشانہ اصلاح قلب ہے نہ کہ اصلاح سیاست۔ سیاست کی اصلاح بطورنتیجہ پیدا ہوتی ہے نہ کہ وہی دعوت کا اصل نشانہ ہے۔
مزید میں نے کہا کہ قرآن میں ایک طرف کہا گیا ہے کہ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اور دوسری طرف ارشاد ہوا ہے کہ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی دعوت کی حکمت یہ ہے کہ اس کو کلمۂ سواء سے شروع کیا جائے نہ کہ کلمۂ نزاع ہے۔ موجودہ زمانےکے مدعیان دعوت نے اپنا کام کلمہ ٔنزاع سے شروع کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار بر بادی کے باوجود انھیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
ڈاکٹر میاں محمد سعید (حال مقیم واشنگٹن )نے 1962 کا ایک واقعہ بتا یا ۔ اس وقت وہ لندن میں تھے ۔ لندن یونیورسٹی میں ان کی ملاقات ڈاکٹر پدما مسرا سے ہوئی۔ وہ ایک ہندستانی خاتون تھیں۔جو اس وقت لندن یونیورسٹی میں تھیں ۔ گفتگو کے دوران ڈاکٹر پد مامسرا نے ایک واقعہ بتایا۔
انھوں نے کہا کہ وہ بنارس اور لکھنؤ کے درمیان سفر کر رہی تھیں۔ ان کے ڈبے میں لکھنؤ کی ایک مسلمان عورت بھی تھی جو ایک سیٹ پر اپنی گٹھری رکھے ہوئے بیٹھی تھی۔ اس کے میلے کپڑے بتا رہے تھے کہ وہ کسی معمولی گھر کی ہے۔ غالباً وہ سبزی فروش گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس دوران میں وہ ایک بار باتھ روم گئی اس کی غیر موجودگی میں ایک کھڑے ہوئے مسافر نے اس کی گٹھری ہٹا دی اور جگہ بنا کر وہاں بیٹھ گیا۔ مذکورہ عورت جب باہر واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی گٹھری ہٹی ہوئی ہے اور وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا ہے۔یہ دیکھ کر وہ سخت برہم ہو گئی۔ اس نے غصہ میں کہا :
نہ رہی نوابی، ورنہ تم کو زندہ دیوار میں چنوا دیتی
یہ واقعہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر سعید صاحب نے کہا کہ مسلمانوں سے حکومت چلی گئی ، مگر ان کا حاکمانہ مزاج اب تک ان سے نہیں گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہے ۔ آج جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ پیش آرہا ہے وہ سب ان کے اسی مزاج کی قیمت ہے۔ کوئی نعمت آدمی کو ملے تو آدمی کو اس پر شکر کرنا چاہیے، اور جب وہ چھن جائے تو صبر ۔ مگر مسلمانوں نے نہ پہلے شکر کیا اور نہ اب وہ صبر کرنے پرراضی ہیں ۔
کھانے کی میز پر ایک بار چھ آدمی تھے۔ ان میں سے پانچ عرب تھے۔ صرف میں غیر عرب تھا۔ ایک مصری تھے جو مسلسل بول رہے تھے۔ دوسرے لوگ متکلّم کے بجائے زیادہ تر سامع بنے رہے۔ مصری صاحب مجلسی انداز کی باتیں کر رہے تھے، اور طرح طرح کے لطیفے بیان کر رہے تھے۔ اس اثنا میں انھوں نے اس عربی مقولہ کو دہرایا : خير الكلام ما قلّ و دلّ (بہترین کلام وہ ہے جو مختصر ہو اور مدلل ہو ) اس مختصر مقولہ پر بھی انھوں نے ایک " مفصل " تقریر کر ڈالی۔
مصری کا مذکورہ مقولے کو نقل کرنا مقولہ برائے مقولہ تھا۔ کیونکہ ان کا اپنا کلام سراسر اس سے مختلف تھا۔ یہی حال دین کے معاملے میں بھی اکثر لوگوں کا ہے ۔ وہ دین کے موضوع پر تقریر کرتے ہیں۔ مگر یہ سارا معاملہ تقریربرائے تقریر ہوتا ہے۔ وہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کوئی مجلسی آدمی طرح طرح کی باتیں کرے، حالانکہ ان میں سے کسی بات پر بھی اس کا ایمان نہ ہو۔
یہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو ایک یورپی ملک سے آئے تھے۔ انھوں نے اسلامیات سےایم اے کیا ہے ۔ وہ مجھ سے واقف نہ تھے۔ حتی کہ انھوں نے میرا نام بھی نہیں سنا تھا ، ان سے ایک اسلامی موضوع پر گفتگو ہوئی۔ میں نے ان کے نقطہ ٔنظر سے مختلف نقطہ ٔنظر پیش کیا اور اس کے حق میں قرآن و حدیث سے دلیلیں دیں۔ میری بات سے ان پر استعجاب کی کیفیت طاری ہوگئی ۔ تاہم وہ اپنی زبان سے یہ نہ کہہ سکے کہ آپ کا نقطۂ نظر درست ہے۔ انھوں نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی :مگر فلاں فلاں مشہور لوگوں نے توایسا نہیں کہا۔
بیشتر لوگ کسی بات کو اس لیے مانتے ہیں کہ ان کی مسلّمہ شخصیت نے ایسا کہا ہے نہ کہ دلیل سے اس طرح ثابت ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے اندر سچائی کبھی ذہنی انقلاب بن کر داخل نہیں ہوتی ۔ ان کا ذہن ہمیشہ شخصیتوں کی عظمت میں گم رہتا ہے، وہ حقائق کی عظمت میں گم ہونے کا کبھی تجربہ نہیں کرتا ۔
ڈاکٹرا سکندر احمد چودھری بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے ہیں ۔ آجکل وہ ٹوکیو ( جاپان )میں مقیم ہیں۔ وہاں وہ ریڈیو میں بنگالی اناؤنسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اسلامک کلچر سوسائٹی جاپان کے ڈائرکٹر ہیں۔
ڈاکٹر چو دھری سے جاپان کے بارےمیں گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ میں نے جاپان پر 1967 سے لکھنا شروع کیا جب کہ ہندستان میں جاپان کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ جواہر لال نہرو اس کو اپنی ناوابستگی کی پالیسی کے خلاف سمجھتے تھے کہ وہ جاپان سے تعلق قائم کریں۔ پچھلے 25 سال میں میں نے جاپان پر اتنے زیادہ مضامین لکھے ہیں کہ اگر ان کو جمع کیا جائے تو ایک پوری کتاب بن جائے ۔ میں نے کہا کہ جاپان سے میری دل چسپی کا سبب ہے "حدیبیہ "کی پالیسی جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کے میدان میں عالی شان طور پر استعمال فرمایا تھا، اس کو تاریخ میں دوسری بار جاپان نے سیکولر میدان میں استعمال کیا ہے ۔
ڈاکٹر چودھری سے میں نے کہا کہ اس پالیسی کو جاپانیوں نے عملِ معکوس (Reverse course) کا نام دیا تھا۔ میں نے پوچھا کہ اس کے لیے جاپانی لفظ کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے لیے جاپانی لفظ گیا کو تن (Gyakuten) ہے ۔ ڈاکٹر چودھری سے گفتگو کے دوران میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جاپانیوں کی خاص صفت جس کی بنا پر انھوں نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے ، وہ ، ایک لفظ میں ، حکم کی تابعداری (Submission to authority) کا مزاج ہے۔
اس میں شک نہیں کہ کسی بڑی ترقی کے لیے یہ سب سے اہم صفت ہے ۔ جاپانیوں میں یہ صفت آخری حد تک پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے افسر یا حاکم کی بات کو فوراً ماننے پر راضی ہو جاتے ہیں ، خواہ وہ انھیں صحیح نظر آئے یا غلط۔ یہ صفت صحابۂ کرام میں بدرجۂ کمال پائی جاتی تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کی۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہ صفت انتہائی حد تک مفقود ہےاور بلاشبہ ان کی موجودہ بربادی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔
میں نے ان سے مزید پوچھا کہ جاپان نے موجودہ زمانے میں جو ترقی کی ہے اس کو اقتصادی معجزہ کہا جاتا ہے۔ اس معجزہ کا راز کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مگر جا پانی اس کو معجزہ نہیں کہتے ۔ وہ اس کو سخت محنت (Hard work) کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ بالکل درست ہے۔ اگر اس کو معجزہ کہا جائےتب بھی اس کا اصل راز ہار ڈورک ہی ہے نہ کہ کوئی پر اسرار چیز ۔
ایک پاکستانی پروفیسر سے ملاقات ہوئی۔ وہ سیالکوٹ کے رہنے والے ہیں اور امریکہ کی یونیورسٹی میں استاد ہیں ۔ وہ تقریباً 20 سال سے امریکہ میں رہ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ میں زندگی بہت پُر سکون ہے۔ مگر وہاں کا سب سے بڑا مسئلہ وہ ہے جو ہماری نسلوں سے تعلق رکھتا ہے ۔ ہمارے بچے وہاں کے ماحول سے اتنا زیادہ متاثر ہو رہے ہیں کہ اس بات کا شدید اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ ہماری تیسری نسل مسلمان بھی باقی رہے گی یا نہیں ۔ انھوں نے کہا کہ میرے جیسے لوگ برابر اپنے وطن واپس جانے کو سوچتے رہتےہیں ، مگر اب وطن کا ماحول بھی اتنا زیادہ بگڑ چکا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہو گا۔
میں نے کہا کہ امریکہ کا مسئلہ اگر غیر اسلام ہے تو پاکستان میں کچھ لوگوں کی نادانی سے خود اسلام ایک مسئلہ بن گیا ہے ۔ میری یہ بات انھیں عجیب معلوم ہوئی۔ میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اس کو زبر دستی اسلامائز کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہاں اسلام تو نہیں آیا ، البتہ لوگ اسلام سے متوحّش ہو گئے۔ ایک نوجوان اگر جاہل رہ جائے اور جلد تعلیم یافتہ بنانے کے شوق میں آپ اس کو مار مار کر پڑھانا شروع کر دیں تو وہ تعلیم یافتہ تو نہیں بنے گا ، البتہ تعلیم سے متنفّر ہو جائے گا۔ یہی صورت پاکستان کے ساتھ پیش آئی ہے ۔
میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شدت کے ساتھ یہ ہدایت دی تھی کہ میرے بعد مسلم حکمرانوں سے نہ لڑنا ، حتٰی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ تم دیکھو کہ ان میں بگاڑ آگیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کا مقصود کوششوں کو روکنا نہیں بلکہ کوششوں کو ڈا ئیورٹ (Divert) کرنا تھا۔ یہی کام کرنے کا صحیح ترین طریقہ ہے۔ اور اسلام کی تاریخ میں اس کی انتہائی روشن مثال محدثین کا طبقہ ہے۔ محد ثین کے زمانے میں حکمرانوں میں بہت بگاڑآچکا تھا ، مگر انھوں نے حکمرانوں سے ٹکر انے کے بجائے اپنے آپ کو حدیث کی خدمت میں لگا دیا ۔ اس کے نتیجے میں حدیث کی جمع و تدوین کاوہ عظیم الشان کام انجام پایا جس کی اہمیت قیامت تک ختم ہونے والی نہیں۔
پھر میں نے کہا کہ سوسائٹی سے سسٹم بنتا ہے سسٹم سے سوسائٹی نہیں بنتی۔ پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کی سوسائٹی اسلام کے نظام ِقانون کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ ایسی حالت میں پہلا کام یہ ہے کہ سوسائٹی کے اندر اس کی استعداد پیدا کی جائے ۔ یہ کام صرف تذکیر و نصیحت کے ذریعے انجام پاتا ہے نہ کہ کوڑا مارنے اور سزائیں جاری کرنے سے ۔ یہ گفتگو 23 اکتوبر 1988 کو ہوئی۔
ہم لوگ ہوٹل کی لابی میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ سامنے ایک نیچی میز تھی جس کے اوپر لکڑی کے تختہ کے بجائے سفید مائل سنگ مرمر لگا ہوا تھا۔ ایک صاحب نے بتایا کہ یہ سنگ مرمر افغانستان کی خاص چیز ہے۔ اور جب لاہور میں اقبال کا مقبرہ بن رہا تھا تو اس وقت کے افغانی حکمراں نے اس میں لگانے کے لیے افغانی سنگ مرمربطورِ ہدیہ روانہ کیا تھا۔
ایک صاحب اقبال کے فارسی کلام سے اچھی طرح واقف تھے۔ انھوں نے اقبال کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو حوصلہ دیا۔ اگر اقبال نہ ہوتے تو موجودہ مسلمان بے حوصلہ ہو کر رہ جاتے۔ میں نے کہا کہ اقبال نے شاعرانہ ترنم تو قوم کو ضرور دیا ۔ مگر جہاں تک حوصلہ کا تعلق ہے ، ان کے کلام نے بر عکس کام کیا ہے۔ میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اقبال نے سلطان ٹیپو کے بارے میں کہا کہ وہ ہماری ترکش کا آخری تیر تھا :
ترکش مارا خدنگ آخریں
اس شعر کی روشنی میں دیکھئے تو سلطان ٹیپو کی شکست (بالفاظ دیگر مسلمانوں کی عسکری قوت کی بربادی) کے بعد ہندستانی مسلمانوں کے پاس گویا کچھ نہیں رہا۔ یہ تصور کتنی زبردست پست حوصلگی پیدا کرتا ہے۔ انھوں کہا کہ پھر آپ کے خیال میں اقبال کو کیا کہنا چاہیے تھا۔ میں نے کہا کہ اقبال کو کہنا چاہیے تھا کہ ٹیپو کی عسکری طاقت ختم ہو گئی تو غم کی بات نہیں ۔ اسلام کی دعوتی طاقت زندہ ہے ۔ تم اسلامی دعوت کو لے کر اٹھو ۔ اور اس کے ذریعےسے دنیا کو مسخّر کرو۔ اقبال اگر یہ بات کہتے تو اس سے مسلمانوں کو رہنمائی ملتی مگر ٹیپو کو "آخری تیر " کہہ کر انھوں نے مسلمانوں کو بے حوصلگی کے سوا اور کچھ نہیں دیا۔
ایک عالم سے ملاقات ہوئی۔ ان کی تعلیم پاکستان کے ایک دار العلوم میں ہوئی ہے اور اچھی اردو جانتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں الرسالہ برابر پڑھتا ہوں۔ وہ مجھے پاکستان کے ایک واقف کار کے ذریعہ مل جاتا ہے ۔ بعض اوقات وہ صاحب پورے رسالہ کی فوٹو کاپی کر کے مجھے روانہ کر دیتے ہیں۔
انھوں نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اکتوبر 1988 کے الرسالہ میں زمین سے محروم (صفحہ 3) کے عنوان سے جنرل ضیاء الحق مرحوم پر جو مضمون ہے وہ لاجواب ہے ۔ انھوں نے کہا کہ جنرل ضیاء کی موت پر مسلم دنیا کے تقریباً ہر اخبار اور ہر رسالہ نے مضامین شائع کیے ہیں اور ہر رہنما نے اپنے بیانات دیے ہیں، مگر آپ کا مضمون ان سب میں منفرد تھا۔ دوسرے لوگوں نے عام طور پر صرف ضیاء کی تعریف کی ہے ۔ ان کو ہیرو بنایا ہے۔ مگر آپ نے اس سے سبق کا پہلو نکالا ہے ۔ اور مؤمن کی خصوصیت یہی ہے کہ وہ ہر واقعے اور ہرحادثے سے عبرت اور نصیحت لے سکے۔
انھوں نے کہا کہ امت پر اس قسم کا سب سے بڑا واقعہ وہ تھا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ۔ اس وقت صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا کہ ہر ایک آپ کی شان میں تعریفی تقریر کرنے لگے اور آپ کو" شہید" یا اسلامی ہیرو ثابت کرنے میں تمام الفاظ صرف کر ڈالے ۔ اس کے برعکس انھوں نے اس واقعے سے موت اور آخرت کی یاد حاصل کی۔ حضرت ابو بکر تشریف لائے اور آپ کی میت کو دیکھا تو قرآن کی یہ آیت پڑھی : كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ ۔ اسی طرح حضرت عباس نے فرمایا : وَاللهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، لَقَدْ ذَاقَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم الْمَوْتَ مذکورہ عالم نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ اس دور میں الرسالہ سنتِ رسول اللہ کو زندہ کر رہاہے۔ لوگوں کو قومی دین سے نکال کر خداوندی دین پر لا رہا ہے۔ اس وقت اس سے بڑا کوئی کام نہیں۔
کمرہ کی جو میز تھی ، اس کے سامنے ملا ہوا بڑا سا شیشہ لگا ہو ا تھا۔ میں بیٹھ کر کچھ لکھ رہا تھا۔ اس دوران آئینہ کی طرف نظر گئی تو دکھائی دیا کہ قلم میرے بائیں ہاتھ میں ہے ، حالانکہ میں اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھا۔ اسی طرح گھڑی دائیں ہاتھ میں دکھائی دی، حالانکہ وہ میرے بائیں ہاتھ میں تھی۔
ایسا اس لیے تھا کہ آئینہ میں آدمی کی تصویر الٹ جاتی ہے۔ یعنی دایاں رخ بائیں طرف اور بایاں رخ دائیں طرف ہو جاتا ہے۔ یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو خارجی دنیا کو اپنے فٹ کیے ہوئے شیشہ میں دیکھیں۔ ان کے اپنے مشاہدہ میں ہر چیز الٹی ہوگی اور وہ ان کو الٹی صورت میں بیان کریں گے۔ بظاہر وہ اپنے بیان میں مخلص ہوں گے۔ مگر مخلص ہونے کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی جو کچھ کہہ رہا ہے وہ واقعہ کے اعتبار سے بھی صحیح ہے۔ ایک چیز باعتبارمشاہدہ کچھ اور ہوتی ہے اورباعتبار واقعہ کچھ اور ۔
فجر کی اذان کی آواز آئی ۔ گھڑی دیکھی تو ہندستانی وقت کے لحاظ سے گھڑی میں چھ بج رہے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ دہلی میں آجکل فجر کی اذان تقریباً پانچ بجے ہوتی ہے۔ افغانستان کا وقت ، ہندستان کے مقابلے میں ایک گھنٹہ پیچھے ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندستان "آگے " ہے اور افغانستان اس سے" پیچھے"یہ صرف ایک جغرافی تقسیم کا معاملہ ہے نہ کہ سابق اور مسبوق کا معاملہ ۔
نماز میں امام کو آگے کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ امام کی شخصیت برتر ہے اور دوسرے نمازیوں کی کم تر ۔ یہ قیام جماعت کے لیے ایک انتظامی تقسیم ہے۔ کبھی فرق باعتبارِ جو ہر ہوتا ہے اور کبھی فرق با عتبارِ انتظام ۔جو لوگ جوہری تقسیم اور انتظامی تقسیم کے اس فرق کو نہیں سمجھتے وہ ایک عظیم الشان غلطی کرتے ہیں۔ جس فرق کو اللہ تعالیٰ نے برائے انتظام رکھا تھا ، اس کو افضلیت اور غیر افضلیت کے معنی میں لے لیتے ہیں اور پھر دین میں زبر دست خرابی پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔
25 اکتوبر کو میں نے واپسی کا پروگرام بنایا تھا ۔ کانفرنس کے منتظمین کی طرف سے پیغام ملا کہ 25 اکتوبر کی شام کو ڈاکٹر نجیب اللہ (پریسیڈنٹ افغانستان) شرکاء کا نفرنس سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔آپ کا نام لے کر خاص طور پر انھوں نے کہا کہ ان سے ملنا بھی ضروری ہے ۔ یہ ملاقات یہاں کے صدارتی محل میں ہونے والی تھی۔ میں نے عذر پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں 25 اکتوبر کی فلائٹ چھوڑ وں تواس کے بعد اگلی فلائٹ مجھے 27 اکتوبر کو ملے گی۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ عذر پریسیڈنٹ صاحب کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس کی فکر نہ کیجئے 26 اکتوبر کو انھیں اسپیشل فلائٹ کے ذریعہ دہلی پہنچا دیا جائے گا ۔ مگر اپنے ضروری پروگرام کے تحت میرے لیے مزید ٹھہرنے کا موقع نہ تھا ، چنانچہ میں25 اکتوبر 1988 کو دہلی واپس آگیا۔
25 اکتوبر کو مجھے انڈین ائیر لائنز سے واپس آنا تھا۔ مگر اس روز کی فلائٹ سے ہماری سیٹ کنفرم نہ تھی۔ میں اور میرے ساتھی دونوں ویٹنگ لسٹ پر تھے۔ ایر پورٹ پہنچے تو کاؤنٹر پر بتایا گیا کہ تمام سیٹیں بھر چکی ہیں۔ اب اس جہاز سے سفر کی کوئی گنجائش نہیں۔
اتنے میں انڈین ایئر لائنز کے مینیجر کسی وجہ سے وی آئی پی لاونج میں آگئے جہاں ہم لوگ بیٹھے ہوئےتھے۔ میں فوراً ان سے ملا اور کہا کہ کل مجھے روم جانا ہے، اس لیے آج میراد ہلی پہنچنا ضروری ہے ۔ اگر آپ اس جہاز سے ہمیں بھیج دیں تو آپ کی بڑی عنایت ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ اچھا، میں تھوڑی دیر میں بتاتا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ اپنے آفس میں چلے گئے۔ چند منٹ بعد ایک کلرک آیا۔ اس نے ہم دونوں آدمیوں کا ٹکٹ اور پاسپورٹ مانگا۔ تھوڑی دیر کے بعد مذکورہ کلرک دوبارہ آیا اور ٹکٹ اور پاسپورٹ کے ساتھ ہمار ابورڈنگ کارڈ بھی ہمارے حوالہ کر دیا ۔
انڈین ایئر لائنز کے منیجر جنھوں نے بالکل آخر وقت میں ہمار ایہ کام کیا ان کا نام مسٹر او دے کمار شرما تھا۔ اس کے بعد جب میں ہوائی جہاز میں داخل ہو کر اپنی سیٹ پر بیٹھا تو میرا دل کہہ رہا تھا –––––– اگر آدمی اپنے کیس کو جینوئن کیس ثابت کر سکے تو ہر شخص اس کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ،خواہ اس کا نام اودے کمار شرما ہو یا محمد اسلام الدین۔