رحم دل فاتح
2 اکتوبر 1187 ء مسلم تاریخ کا نہایت اہم دن ہے۔ یہی وہ دن ہے جب کہ صلیبی طاقتوں کے 88 سالہ قبضےکے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی دوبارہ بیت المقدس میں داخل ہوئے۔
1095 ء میں پوپ نے یورپی قوموں کو صلیبی جنگ پر ابھارا تا کہ "مسیح کی مقدس قبر کو مسلمانوں کے ہاتھ سے واپس لیا جاسکے"۔ اس کے جواب میں یورپ کے مسیحی حکمراں جوش کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہولناک لڑائیاں ہوئیں۔ یہاں تک کہ مسیحیوں نے فلسطین کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد فتح کے نشے میں انھوں نے تمام انسانی قدروں کو پامال کر ڈالا۔ وہ مسلمانوں کو فلسطین سے بزور نکالنے لگے اور انھیں ہلاک کرنا شروع کیا۔
اس موضوع پر بہت سی کتابیں مختلف زبانوں میں چھپ چکی ہیں۔ حال میں ریاض کے عربی ماہنامہ الفیصل (ر بیع الآخر 1409ھ) میں اس کے بارے میں ایک مفید معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے۔ یہ مضمون فرانسیسی مستشرق آلان روکو کے فرانسیسی مقالہ کا ترجمہ ہے جو مصطفیٰ کمال الجابری نے کیا ہے۔
صلاح الدین ایوبی 27 نومبر 1174ء کو دمشق پہنچے ۔ پھر وہ حلب گئے ۔ جلد ہی اپنی خصوصیات کی بنا پر انھیں دمشق ، حلب ، قاہرہ کے حاکم کی حیثیت حاصل ہوگئی۔انھوں نےدمشق کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ خلیفہ ٔبغداد نے ان کو مصر اور شام کا فرماں روا تسلیم کر لیا۔ اپنی صفات کی بنا پر وہ عامۃ الناس کے محبوب بن گئے ۔ ان کو سیف الاسلام کہا جانے لگا ۔
صلاح الدین نے اس کے بعد اپنی فوج کو طاقتور انداز میں منظم کیا۔ اور پھر انھوں نے صلیبیوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا جو فلسطین پر قبضہ کیے ہوئے تھے۔ انھوں نے عہد کیا کہ وہ ارض مقدس سے صلیبی طاقتوں کو نکال کر رہیں گے ۔ اعلیٰ ترین جنگی منصوبہ ثابت کرتا ہے کہ صلاح الدین جنگی امور میں عبقری مہارت رکھتے تھے (خطة حربية عالية المستوى تدل على عبقرية صلاح الدين العسكرية) انھوں نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ صلیبی فوجوں کو پانی سے محروم کر دیا اور حطین کےمقام پر ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔
صلاح الدین نے مسلسل فتوحات حاصل کرتے ہوئے اکتوبر 1187ء میں قلعہ القدس پر قبضہ کر لیا۔ صلیبیوں نے اپنے زمانہ ٔاقتدار میں فلسطین کے مسلمانوں پر ہر قسم کے ظلم کیے تھے۔ مگر صلاح الدین نے فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے خلاف کوئی بھی انتقامی کارروائی نہیں کی۔ ان کی تلوار صلیبی جارحیت کے خلاف میان سے نکلی تھی ، صلیبی جارحیت کو ختم کرتے ہی وہ دوبارہ میان میں چلی گئی۔
فرانسیسی مستشرق نے لکھا ہے کہ صلاح الدین نے مسیحیوں کے ساتھ انتہائی شریفانہ معاملہ کیا۔ قدس میں داخل ہونے کے بعد انھوں نے حکم جاری کیا کہ اسپتالوں میں جو مسیحی لوگ زیر علاج ہیں، ان کا علاج جاری رکھا جائے ۔ تمام بڑے بڑے چرچ مسیحیوں کے قبضہ میں بدستور باقی رہے ۔ انھوں نے 1500 مسیحیوں کے اوپر سے جزیہ معاف کر دیا، کیوں کہ انھوں نے کہا تھا کہ وہ مفلسی کی وجہ سے جزیہ نہیں دے سکتے۔ انھوں نے ایک بڑے صلیبی عہدیدار کو اجازت دی کہ وہ چرچ کے خزانہ کو اپنے ساتھ جہاں چاہے لے جائے ۔ وغیرہ
صلیبی فوجی جو گرفتار ہو گئے تھے ، ان کی عورتیں صلاح الدین کے پاس آئیں۔ انھوں نے صلاح الدین کے پیروں پر اپنا سر رکھ دیا اور اپنے فوجی شوہروں کی رہائی کی درخواست کی ۔ چنانچہ انھوں نے تمام فوجیوں کی رہائی کا حکم دے دیا۔ مضمون ان الفاظ پر ختم ہوتا ہے :
فقد كان المؤرخ الفرنسي (جوستاف لوبون) على حق عند ما قال جملته المأثورة : لم يعرف التاريخ فاتحاً أرحم من العرب (صفحہ 101) فرانسیسی مورخ گستاؤ لیبان یہ کہنے میں بالکل حق بجانب تھا کہ تاریخ نے عربوں سے زیادہ رحم دل فاتح نہیں دیکھا ۔
جنگ کے بارےمیں یہی اسلام کا اصول ہے ۔ اسلام جارحیت کے خلاف دفاع کی مکمل اجازت دیتا ہے ۔ مگر جب جارح کی تلوار ٹوٹ جائے تو اس کے بعد اہل اسلام بھی اپنی تلوار تو ڑلیتے ہیں۔ اسلام میں دفاع ہے مگر جارحیت نہیں۔ اسلام میں حفاظتی کارروائی ہے مگر انتقامی کار روائی نہیں۔ اسلام میں اپنا حق وصول کرنا ہے مگر اسلام میں یہ جائز نہیں کہ آدمی دوسرے کے خلاف دست درازی کرنے لگے ۔ اسلام جس دل میں اترتا ہے وہ اس کو مثبت احساسات میں جینے والا انسان بناتا ہے نہ کہ منفی احساسات میں جینے والا انسان ۔