قرآن اور عربی زبان
رومن امپائر کے زمانے میں امپائر کی عام زبان لاتینی تھی۔ تاہم مختلف علاقوں میں لہجوں کا فرق تھا۔ زبان ایک تھی مگر لہجہ کے اعتبار سے وہ الگ الگ انداز میں بولی جاتی تھی ۔ چوں کہ لہجہ کے اس فرق کو کسی ایک وحدت میں باندھے رکھنے کا ان کے پاس کوئی طاقتور ادبی معیار موجود نہ تھا، یہ فرق بڑھتا رہا ، یہاں تک کہ لہجوں کا فرق بالآخرز بانوں کا فرق بن گیا اور مختلف زبانیں وجود میں آئیں جن کو اب رومی زبانیں (Romance languages) کہا جاتا ہے ۔
یہی مختلف زبانیں ہیں جن کو موجودہ زمانے میں فرانسیسی، اسپینی ، اطالوی، پرتگالی، رومانی زبانیں کہا جاتا ہے ۔ اسی کے ساتھ یورپ کی بہت سی چھوٹی چھوٹی زبانیں مثلاً (Occitan, Catalan, Sardinian, Rhaetian, Creoles) وغیرہ بھی اسی قدیم اصل کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں۔ اس طرح ایک زبان کچھ صدیوں کے بعد ایک درجن زبان بن گئی ۔
ایک زبان سے کئی زبان بننے کا یہی واقعہ عربی زبان کے ساتھ بھی پیش آسکتا تھا۔ قدیم زمانے میں مختلف عرب قبائل کے لہجوں میں زبردست فرق پایا جاتا تھا۔ آج بھی لہجوں کا یہ فرق مختلف عرب علاقوں میں بدستور موجود ہے ۔ ایک لہجہ کا آدمی دوسرے لہجہ کے آدمی کی بات کو بمشکل سمجھ سکتا ہے ۔
اس واضح فرق کے باوجود تمام عرب علاقوں کی تحریری زبان ایک رہی ۔ وہ کئی زبان نہ بن سکی ۔ عربی زبان کی وحدت براہ راست قرآن کا کرشمہ ہے ۔ یہ تمام تر قرآن کا تاثیری کارنامہ ہے کہ اس نے عربی زبان کو ایک تحریری صورت پر باقی رکھا ، اس نے عربی کو باعتبار تحریر، کئی زبان بننے نہیں دیا۔ بولنے کے وقت آدمی اپنے قبیلے کے لہجہ کی پیروی کرتا تھا ، مگر لکھنے کے وقت وہ قرآن کی پیروی کرنے پر مجبور تھا۔ اس طرح قر آن کا طاقت ور ادبی معیارکے لہجاتی فرق پر اس طرح چھایا رہا کہ اس نے ان کو الگ الگ ہونے سے روک دیا ۔
قرآن سے پہلے عرب میں زیادہ تر صرف شاعری کا رواج تھا۔ لوگ اشعار کی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے ۔ اہل عرب کے نزدیک ، قرآن سب سے پہلا کلام ہےجو نثر کی صورت میں سامنے آیا (إِنَّ الْقُرْانَ أَوَّلُ ظَاهِرَة نَثْرِيَّةٍ فَنِّيَّةٍ عِنْدَ الْعَرَبِ ،جوزيف الهاشم، المفيد في الادب العربي )
پروفیسر ہٹی نے قرآن کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قرآن کی ادبی تاثیر کا اندازہ اس وقت ہو جاتا ہے جب یہ دیکھا جائے کہ یہ صرف قرآن ہی تھا جس کی وجہ سے ایسا ہوا کہ عربوں کی مختلف بولیاں الگ الگ زبان کی صورت اختیار نہ کر سکیں ، جیسا کہ رومی زبانوں کے ساتھ پیش آیا ۔ آج ایک عراقی اگرچہ ایک مراکشی کی گفتگو کو سمجھنے میں دشواری محسوس کرتا ہے ، مگر وہ اس کی تحریری زبان کو سمجھنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتا۔ کیوں کہ عراق اور مراکش ، اور اسی طرح شام ، عرب عرب ،مصر، ہر جگہ کلاسیکی زبان کی حیثیت سے وہی عربی زبان رائج ہے جس کا ماڈل قرآن نے تیار کر دیا ہے ۔ محمد کے وقت عربی نثر کی کوئی باقاعدہ کتاب موجود نہ تھی ۔ اس بنا پر قرآن سب سے قدیم نثری کتاب ہے اور یہی کتاب اول روز سے عربی نثر کا ماڈل بنی ہوئی ہے ۔ اس کی زبان میں نغمہ ہے مگر وہ شعر نہیں ۔ اس کی پر نغمہ نثرنے ایک ایسا معیارقائم کر دیا ہے کہ تقریباً ہر قدامت پسند عرب ادیب آج تک اہتمام کے ساتھ اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
Philip K. Hitti, History of the Arabs, London 1970, p. 127
قرآن نے عربی زبان پر بیک وقت دو ایسے اثرات ڈالے ہیں جس کی مثال کسی بھی دوسری زبان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایک یہ کہ قرآن نے عربی کو نظم سے نثر کی طرف موڑ دیا۔ قرآن سے پہلے عربی دور ِشعر میں تھی ، قرآن کے بعد وہ دورِ نثر میں داخل ہوگئی ۔
دوسرا بے مثال اثر یہ ہے کہ قرآن نے عربی زبان کو ایک ایسا اعلیٰ اور آخری ماڈل دیدیا جو گو یا عربی زبان کو پکڑ کر بیٹھ گیا۔ قرآن کی یہی خصوصی دین ہے جس کی وجہ سے عربی زبان آج بھی اپنی سابقہ صورت میں زندہ ہے ، اس کے بغیر عربی کا وہی انجام ہوتا جو دوسری تمام زبانوں کے ساتھ بلا استثناء پیش آیا ہے ۔