اچھا گمان
ایک حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي فَلْيَظُنَّ بِي خَيْرًا ( میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں تو بندہ کو چاہیے کہ وہ میرے بارے میں اچھا گمان کرے )یعنی وہ میرے متعلق حُسن ظن سے کام لیتے ہوئے احتمالات ِشر کے مقابلے میں احتمالاتِ خیر کو ترجیح دے ۔
ایک شخص ایک ادارے میں ملازم تھا۔ اس کو ادارے کی طرف سے ایک کمرہ دیا گیا۔ اس کمرہ میں وہ رہتا تھا اور اسی میں بیٹھ کر وہ اپنا دفتری کام بھی کرتا تھا۔ جب اس کی ماہانہ تنخواہ کا چیک آیا تو اس نے دیکھا کہ وہ دس روپیہ کے بقدر کم ہے۔ اس نے ادارےکے ناظم سے اس کا سبب پوچھا۔ ناظم نے کہا کہ یہ کمرہ کی بجلی کا چارج ہے جو تمہاری تنخواہ سے وضع کیا گیا ہے ۔ آدمی نے کہا کہ میں جس کمرہ میں رہتا ہوں وہی میرا دفتر بھی ہے ۔ ایسی حالت میں بجلی کا خرچ دفتر کے حساب میں جانا چاہیے ۔ ناظم نے جواب دیا : تمہارا کمرہ دفتر بھی ہے اور رہائش بھی ۔ اب سوال یہ ہے کہ کس کو کس کے تابع کیا جائے ۔تم چاہتے ہو کہ رہائش دفتر کے تابع رہے،ہم نے اس کے بر عکس دفتر کو رہائش کے تابع کیا ہے ۔
اس مثال کے ذریعہ مذکورہ حدیث کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ انسان تنگ دل ہے ۔ اس نےبے رحمی کا معاملہ کرتے ہوئے اپنے کارکن کے موافق پہلو کو اس کے غیر موافق پہلو کے تابع کر دیا ،خدا ارحم الراحمین ہے ۔ بندہ کو چاہیے کہ وہ اس کی شان کریمی سے یہ امید رکھے کہ وہ اس کے غیر موافق پہلو کو اس کے موافق پہلو کے تابع کر دے گا ، اور آخرت میں اس کے ساتھ وہ فیصلہ فرمائے گا جو اس کے حق میں زیادہ بہتر اور زیادہ آسان ہو۔
بندےکو امید رکھنا چاہیے کہ قیامت میں اس کا رب اس کے بارے میں کہدے کہ یہ قابل ِسزا نہیں ، قابلِ درگز رہے ۔ وہ اس کی غلطی کو عجز پر محمول کر کے چھوڑ دے گا نہ کہ اس کو سرکشی پر محمول کر کے اسے سزا دے ۔ وہ گمان کرے کہ بندے کے پاس اگر حسنِ عمل کا کوئی ذرہ ہے تو وہ اس کے بقیہ اعمال نامہ کو اسی ذرہ کے تابع کر دے گا نہ کہ ذرہ کو بقیہ اعمال نامہ کے تابع بنا دے۔