ایک آیت
قرآن میں یہود کے بارے میں کہا گیا ہے کہ –––––– اور اہل کتاب میں کوئی ایسا بھی ہے کہ اگر تم اس کے پاس امانت میں بہت سا مان رکھو تو وہ فوراً اس کو ادا کر دے گا۔ اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے کہ اگر تم اس کے پاس امانت میں ایک دینار رکھ دو تو وہ تم کو ادا نہیں کرے گا ، الّایہ کہ تم اس کے سر پر کھڑے ہو جاؤ ( آل عمران 75)
انسانوں میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کے اندر حق اور ناحق کی تمیز پوری طرح زندہ ہو۔ وہ سچ پرقائم ہونا چاہتے ہوں اور جھوٹ سے بھاگنے والے ہوں ۔ وہ ہر آن اپنے آپ کو اللہ کی نگرانی میں سمجھتے ہوں ۔ یہ با اصول لوگ ہیں ۔ وہ اپنے احساسِ فرض کے تحت ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہیں ۔ ان کا حق شناسی کا جذبہ اس کے بغیر مطمئن نہیں ہوتا کہ وہ حق دار کو اس کا حق ادا کریں۔ وہ کسی حال میں حق سے تجاوز کرنے پر راضی نہیں ہوتے ۔
انسانوں کی دوسری قسم وہ ہے جو صرف اپنی خواہش اور اپنے مفاد کو جانتے ہوں ۔ وہ چیزوں کو اس اعتبار سے نہ دیکھیں کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا ۔ بلکہ اس اعتبار سے دیکھیں کہ کیا چیز میرےموافق ہے اور کیا چیز میرے خلاف ۔
ایسے لوگ کبھی حق کی ادائیگی کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اور اگر کبھی حق کو ادا بھی کرتے ہیں تواحساس فرض کے تحت نہیں بلکہ حالت مجبوری کے تحت ۔
ایک انسان وہ ہے جس کے پاس کوئی چیز بطور امانت رکھی جائے تو وہ اس کو غیر کی ملک سمجھے اور جب مالک تقاضا کرے تو فوراً اصل مالک کو وہ چیز لوٹا دے۔ یہ معیاری انسان ہے ، اور اللہ تعالیٰ کےیہاں ایسے لوگوں کا بڑا اجر ہے ۔ دوسرا انسان وہ ہے جس کے اندر امانت کا احساس پوری طرح زندہ نہ ہو۔ تاہم ابھی وہ سرکشی کی حد پر نہ پہنچا ہو۔ ایساشخص بھی چیز کو اصل مالک کی طرف لوٹاتا ہے مگر بار بارکے تقاضے کے بعد ۔ دوسرے انسان کی بدترین قسم ہے جس کو غاصب کہا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ چیز کو نہیں لوٹاتا بلکہ جھوٹے دعوے کر کے غیر کی چیز کواپنی چیز بتاتا ہے۔ ایسا آدمی گمراہی کی آخری حد پرپہنچ چکا ہے ۔ ایسے آدمی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔