تقدس کی پامالی
ایک مسلمان کا مراسلہ قومی آواز (16 دسمبر 1988) میں چھپا ہے ۔ اس میں ہندستانی حکومت کی شکایت کی گئی ہے کہ مسلم جماعتوں کی کوشش کے باوجود اس نے "محکمۂ آثار قدیمہ کے تسلط والی مسجدوں میں نماز کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی "۔ مراسلہ کا خاتمہ ان جذباتی الفاظ پر ہوتا ہے : "مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ ان مساجد میں نماز پڑھ سکیں ، جب کہ ٹورسٹوں کو آزادی ہے کہ وہ ان مساجد میں جائیں ، وہاں کھائیں پئیں ، ہنسیں بولیں ، ٹرانسسٹروں پر گانے سنیں اور موج آئے تو ان گانوں کی دھن پر رقص بھی کر کے ان مساجد کے تقدس کو پامال کریں" ۔ (صفحہ 6)
اس معاملہ میں مسلم رہنما اب تک صرف حکومت ہند کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ انھیں خود اپنے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ حکومتِ ہند کا معاملہ نہیں، بلکہ خود خدا کا معاملہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے(الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ حُرْمَةً مِنَ الْكَعْبَةِ)(حرمة المومن اكرم حرمة من الكعبة)مومن کی عزت و آبرو اتنی زیادہ قابل احترام ہے کہ کعبہ کے احترام سے بھی اس کا درجہ بڑھا ہوا ہے ، عام مساجد تو در کنار۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمان اور ان کے تمام اصاغر واکابر مسلسل اسی عظیم ترجرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
موجودہ مسلمانوں کا حال ، تقریباً بلا استثناء ، یہ ہے کہ کسی مسلمان بھائی سے انھیں اختلاف یا شکایت ہو جائے تو وہ فوراً اس کی عزت و آبرو کو اپنے لیے حلال سمجھ لیتے ہیں ۔ اس کے بعد اس مسلمان کی عیب جوئی ، اس کے خلاف الزام تراشی ، اس کا استہزاء و تمسخر، اس پر جھوٹی تہمت لگانا سب ان کے لیے جائز ہو جاتا ہے۔ مومن کے تقدس کی پامالی کا یہ کام موجود ہ مسلم معاشرہ میں بہت بڑے پیمانہ پر ہو رہا ہے ۔ مگر کوئی ایک شخص نہیں جو اس کے خلاف آواز اٹھائے ۔ یہاں ہر بہادر عملاً بزدل بنا ہوا ہے –––––––– مسلمانوں کا یہی جرم ہے جس نے انھیں خدا کی نظر میں معتوب بنا دیا۔ مسلمانوں نے خدا کے دین کے تقدس کو پامال کیا۔ اس کے نتیجے میں خدا نے لوگوں کو چھوٹ دیدی کہ وہ مسلمانوں کے قومی تقدس کو پامال کریں ۔ اس معاملےمیں مسلمانوں کو خدا کی طرف دوڑنا چاہیے ،کسی انسانی حکومت کی طرف دوڑنے سے کوئی فائدہ نہیں۔