سبب اپنے اندر
سترھویں صدی مسلمانوں کے عروج کی آخری صدی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کی چار بڑی حکومتیں قائم تھیں جو دنیا بھر میں مسلم طاقت کا نشان بنی ہوئی تھیں ۔ انھیں میں عثمانی خلافت بھی تھی جو بغداد سے الجزائر تک ، اور پھر عدن سے ہنگری تک پھیلی ہوئی تھی :
بر صغیر ہند میں مغل سلطنت (Mughal dynasty)
ایران میں صفوی سلطنت (Safavid dynasty)
مراکش میں علوی سلطنت (Alawi (Filali) dynasty)
ترکی میں عثمانی سلطنت (Ottoman Empire)
اٹھارویں صدی کے آغاز سے ان حکومتوں پر زوال شروع ہوا۔ عین اسی وقت سے احیاء و تجدید کی تحریکیں بھی جگہ جگہ شروع ہو گئیں ۔ اب ان تحریکوں پر تقریباً تین سو سال کی مدت گزر چکی ہے۔ مگر یہ تحریکیں نہ مذکورہ سلطنتوں کے زوال کو روک سکیں اور نہ مسلمانوں کو دوبارہ عروج کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوئیں۔ تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاریوں نے بغداد کی عظیم مسلم سلطنت کو تباہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد سو سال کے اندر مسلمانوں نے دوبارہ عزت و سربلندی کے مقام کو پالیا۔ مگر موجودہ زمانہ میں بے شمار قائدوں اور بزرگوں کی تین سو سالہ جد و جہد بھی ناکامی کی تاریخ کے سوا کسی اور چیز میں اضافہ نہ کر سکی ۔
اصل یہ ہے کہ زوال کے پچھلے تمام واقعات زیادہ تر جارحیتِ غیر کے واقعات تھے۔ اس لیے اغیار کے حملہ کا مقابلہ کر کے ابتدائی صورت حال کو دوبارہ بحال کر لیا گیا۔ مگر موجودہ زمانہ کا زوال خود مسلمانوں کے فکری اور ایمانی انحطاط کے نتیجے میں پیش آیا ۔ اب ضرورت تھی کہ مسلمانوں کے اندر فکری انقلاب اور ایمانی حرارت پیدا کرنے سے اپنی کوشش کا آغاز کیا جائے۔ مگر مسلمانوں کے تمام رہنما بدستور اغیار کے حملوں کو سببِ زوال قرار دے کر ان سے بے فائدہ لڑائی لڑتے رہے۔ جب بیج ہی نہ ڈالا گیا ہو تو درخت کہاں سے اُگے گا۔ چنانچہ بے شمار قربانیوں کے باوجود احیاء ِ ملت کا خواب بھی پورا نہیں ہوا ۔