جرم کی نفسیات
لینن (Lennon) اور چیپ مین (Chapman) امریکہ کے دوبیٹل سنگر (Beatle Singer) تھے۔لینن کو نسبتاً زیادہ کامیابی ہوئی ۔ وہ کافی مشہور ہو گیا۔ یہ بات چیپ مین کو برداشت نہ ہو سکی۔ اس کے دل میں لینن کے خلاف حسد کا جذبہ جاگ اٹھا۔ یہ جذبہ بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے ایک روزموقع پاکر لینن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
اخباری رپورٹ کے مطابق اس قتل کا سبب پیشہ ورانہ رقابت (Professional Rivalry) تھی۔ اس کے بعد چیپ مین کے خلاف مقدمہ چلا۔ قاتل نے اس سلسلے میں عدالت میں اپنا جو بیان دیا ،اس میں اپنی براءت ظاہر کرتے ہوئے اس نے کہا تھا :
There is something bad within me, and there is something good within me too. When this little bad within me overpowers my goodness, I do bad deeds.
میرے اندر کچھ برائی ہے۔ اسی کے ساتھ میرے اندر کچھ بھلائی بھی ہے، جب میری برائی میری بھلائی پرغالب آجاتی ہے تو اس وقت میں برا کام کر بیٹھتا ہوں ۔
قاتل کا یہ جملہ اگر سنجیدہ ذہن کے تحت نکلا ہے تو یقیناً وہ فطرت کی ترجمانی ہے۔ بلا شبہ کچھ مجرم عادی مجرم ہوتے ہیں ، ان کو معاف کرنا انسانیت کے اوپر ظلم کرنا ہے۔ مگر بہت سے جرم کرنے والےمحض وقتی جذبے کے تحت جرم کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی فطرت زور کرتی ہے۔ اپنے جرم پر انھیں اس قدر افسوس لاحق ہوتا ہے کہ ان کا افسوس خود ان کے لیے ایک داخلی سز ا بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اس بات کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ غلطیوں کو معاف کرو۔ وقتی جذبے کے تحت جب ایک آدمی کوئی برائی کر بیٹھتا ہے تو اس کے بعد اس کے دل میں خود ہی اس کے خلاف شرمندگی اور افسوس کے جذبات ابھر آتے ہیں ۔ اس وقت اگر ہم اس کو معاف کر دیں تو گویا ہم نے اس کے احساس ِندامت کو سہارا دیا اوراس کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنی غلطی کی تلافی کرے اور دوبارہ ایسی غلطی کرنے سے بچے۔
اسلام میں اگرچہ قتل کی سزا قتل ہے تاہم ایک خاص صورت کے ساتھ اس کو قابل معافی بھی رکھا گیاہے۔ یہ کہ مقتول کے ورثاءاگر قاتل سے دیت لینے پر راضی ہوجائیں تواس کو دیت لے کرچھوڑ دیا جائے اور اس کو قتل نہ کیا جائے ۔