وسط ایشیا
سمر قند وسط ایشیا (سنٹرل ایشیا) کا ایک قدیم مسلم شہر ہے۔ ۱۹۲۸ میں کمیونسٹ فوجوں نے یہاں کے مسلم نواب کو شکست دے کر اس پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد ایک روسی لیڈر نے کتاب لکھی۔ اس کا انگریزی ترجمہ اسی زمانے میں "سمر قند کے اوپر صبح" کے نام سے شائع ہو چکا ہے :
Dawn over Samarkand
اس کتاب میں کمیونسٹ مصنف نے فخر کے ساتھ لکھا تھا کہ –––––سمرقند کا ملّا چیختا رہا۔مگر ہماری توپوں کے گولے اس کی چیخ پر بھاری ثابت ہوئے اور ہم نے اس مسلم شہر پر قبضہ کر لیا۔ اس واقعہ کے ساٹھ سال بعد اشتراکی ایمپائر کی حر بی طاقت بہت زیادہ بڑھ گئی۔ اب اس کے پاس روایتی تو پوں کے بجائے۳۰ ہزار کی تعداد میں ایٹم بم موجود تھے۔ مگر وہ اتنا بےبس ہوا کہ اپنے بموں کو استعمال کرنے کی طاقت بھی اس کے اندر نہ رہی۔ ایٹم بموں اور دوسرے جدید ہتھیاروں کی کثرت کے باوجود اس کا پورا ڈھانچہ تاش کے پتوں کی طرح ڈھ پڑا۔
CIS Oil Regions Map image
اشترا کی صبح نہ صرف سمرقند کے لیے بلکہ پورے سوویت یونین کے لیے صرف اندھیرا ثابت ہوئی۔ ۱۹۹۱میں سوویت یونین اپنی بد ترین کمزوریوں کا شکار ہو کر ٹوٹا تو اسی کے ساتھ نہ صرف سمرقند بلکہ وسط ایشیا کی نصف در جن مسلم ریاستیں (آذربائیجان، قازقستان، کرغیزیہ، تا جکستان ، ترکمانستان، ازبکستان) بھی اچانک آزاد ہو گئیں۔ ۱۹۹۱ سے پہلے جہاں سرخ پر چم لہرارہا تھا وہاں اب ایک وسیع علاقے میں ایک طاقت ور مسلم بلاک وجود میں آگیا ہے۔
سوویت یونین کے غلبے کے زمانے میں حکومت نے ہر طرح اس علاقے میں روسی زبان کو رائج کرنے کی کوشش کی تھی۔ سرکاری طور پر روسی زبان کو ثقافتی برتری(Cultural supremacy) دینے کی تمام تدبیریں کی گئیں۔ مگر یہ تدبیریں ناکام رہیں۔ مجھے اپنے سفرروس (جولائی ۱۹۹۰) میں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہاں کے مسلمان روسی کے ساتھ ترکی اور فارسی زبانیں بھی جانتے ہیں اور آپس میں ان زبانوں کو بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کمیونسٹ قبضہ کے بعد روسی تہذیب کو پورے علاقے میں غالب کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کوشش کو عام طور پر سلاو نائزیشن (Slavonisation) کہا جاتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مسلمانوں کے اسلامی نام بدلے گئے۔ مثلاً نیاز کو نیا زوف ، نظر کو نظر بائیوف ، سلطان کو سلطانوف وغیرہ۔ سنٹرل ایشیا کے ماہر ڈاکٹر ڈینیل پائپس (Daniel Pipes) نے لکھا ہے کہ روسی سیاست اور روسی کلچر کی اس توسیع کی بنا پر مغربی علماء وسط ایشیا کو یورپ کی آخری بڑی کالونی (Last great colony) کہنے لگے تھے۔
لندن اور قاہرہ کے درمیان جو فاصلہ ہے وہی فاصلہ ما سکو اور تاشقند کے درمیان ہے۔ تاہم روسی حکمران ۱۵۵۲ سے ہی اس علاقے میں سیاسی مداخلت کرنے لگے تھے۔ ۱۹۱۷ میں اشتراکی انقلاب کے بعد یہ تدخل زیادہ بڑھا۔ یہاں تک کہ ۱۹۲۸ کے بعد یہاں حدیدی نظم (Iron discipline)قائم کر دیا گیا۔
اعداد و شمار کے مطابق ، ۱۹۳۹ میں پورے سوویت یونین میں مسلم آبادی کا تناسب ۸ فی صد نے کچھ زیادہ (8.7 Percent) تھا۔ اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔ ۱۹۹۰ میں مسلمانوں کی تعداد ۱۹ فی صد سے زیادہ (19.9 Percent)ہوگئی۔ اس مدت میں غیر مسلم آبادی میں اضافہ کی شرح تقریباً ۵ فی صد تھی۔ جب کہ مسلم آبادی میں اضافے کی شرح ۲۷ فی صد تک پہنچ گئی۔ سوویت یونین اگر باقی رہتا تو عنقریب سوویت فوج میں ہر تین فوجی میں سے ایک مسلمان ہوتا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کر غیز یہ کی راجدھانی اوش (Osh) کو دوسرا مکہ کہا جاتا ہے۔ آذربائیجان میں شیعوں کی اکثریت ہے۔ مگر مجموعی طور پر اس علاقے کے مسلمان زیادہ ترسنّی ہیں۔
وسط ایشیا کی ان آزاد مسلم ریاستوں کی واحد کمی یہ ہے کہ وہ سمندری ساحل سے محروم (Land locked) ہیں۔ یہ کمی پڑوسی مسلم ملکوں (ترکی ، ایران ، پاکستان) کے ذریعہ پوری ہوسکتی ہے۔ چنانچہ ترکی سب سے پہلا ملک تھا جس نے الما اتا (Alma Ata) کے فیصلہ کے بعد ان ریاستوں کو آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا۔ ایران نے اپنی سرحد تک ریلوے لائن بچھانے میں مدد دینے کی پیش کش کی ہے۔ پاکستان نے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کے راستے سے پاکستان کی بندر گاہوں تک خشک راستہ (Land route) دینا منظور کیا ہے۔ ان ریاستوں کے لیے ترکی کے راستے سے میڈیٹرینین تک پہنچنا بہت آسان ہے۔
ایک مبصر کے الفاظ میں ، یہ علاقہ امکانات سے بھرا ہوا ہے:
The region is full of possibilities.
از بکستان کپاس کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ قازقستان میں تیل کے ذخائر ہیں۔ تاجکستان ز راعت کے لیے بہت موزوں ہے۔ ترکمانستان میں کپاس کی پیداوار کے وسیع امکانات ہیں۔ کرغیزیہ زراعت کے وسائل سے مالامال ہے۔ آذربائیجان میں کثیر تعداد میں تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔
ایک مبصر نے کہا ہے کہ اشتراکیت کی موت کے بعد یہ امید کرنا بالکل فطری ہے کہ اس خطہ میں اسلامی نظریہ کو قائم کر نے کا رجحان ابھرے گا :
It would be natural to expect that with the death of communism there would be a trend towards establishment of Islamic ideology in the six republics.
حقیقت یہ ہے کہ سابق سوویت یونین کے زیر اقتدار ان مسلم ریاستوں کے آزاد ہونے کے بعد ، جغرافی نقشہ پر ایک عظیم مسلم بلاک وجود میں آگیا ہے۔ اگر یہ پور ا بلاک متحد ہو جائے تو قریبی مستقبل میں بلاشبہ اسلام دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن جائے گا۔