جاننے کی تڑپ
ایک حدیث ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ (السنن الكبرى - البيهقي : 1077)۔ یعنی جاہل آدمی کے جہل کا علاج سوال کرنا ہے۔ ناواقف آدمی اگر سوال نہ کرے تو اس کی ناواقفیت باقی رہے گی لیکن اگر اس کے اندر سوال کرنے کا مزاج ہو اور وہ دوسروں سے سوال کرے تو کوئی جاننے والا اس کو بتا دے گا ، اور اس طرح اس کی بے خبری ختم ہو جائے گی۔
اسی مفہوم میں عربی کا ایک مقولہ ہے کہ :لا أدری نصف العلم۔ یعنی یہ جاننا کہ میں نہیں جانتا ، یہ بھی آدھا علم ہے۔ ایک بے خبر آدمی اگر اپنی بے خبری سے لا علم ہو تو وہ ہمیشہ لاعلمی میں رہے گا۔ لیکن جب وہ اس ذاتی دریافت تک پہنچ جائے کہ میں فلاں بات کو نہیں جانتا تو وہ اس کی کھوج میں لگ جائے گا۔ وہ اپنے لا أدری کو أدری بنانا چاہے گا۔ اس کا یہ جذبہ اس کو علم تک پہنچادے گا۔ اس کا بے آگہی کا احساس اس کو آگاہی تک پہنچانے کا زینہ بن جائے گا۔
موجودہ زمانے میں اس کو روح ِجستجو (spirit of inquiry) کہا جاتا ہے اور اس کوبے حد اہمیت دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ دور سائنس کو ظہور میں لانے والی چیز یہی اسپرٹ آف انکوائری (تلاش و جستجو کی روح) ہے۔ جستجو کی تڑپ نے آدمی کو دریافت تک پہنچایا ہے۔
قدیم زمانے میں انسان فطرت کے مظاہر کو خدائی مظاہر سمجھتا تھا۔ وہ ان کو خدائی کا درجہ دیےہوئےتھا۔ اس لیے ان کو دیکھ کر اس کے اندر جو چیز جا گتی تھی وہ پرستش کی اسپرٹ (spirit of worship)تھی۔ جب ان مظاہر کو خدائی کے مقام سے ہٹایا گیا تو اس کے بعد انسان کے اندر ان کے بارےمیں تحقیق و جستجو کی اسپرٹ (spirit of inquiry) جاگ اٹھی۔ اس کےنتیجے میں تمام حقائق ِفطرت دریافت ہوئے۔
سوال کا مزاج اور تحقیق کا مزاج تمام فکری اور علمی ترقیوں کا زینہ ہے۔ وہی لوگ علم و فکر کی راہ میں بڑی ترقیاں حاصل کرتے ہیں جن کے اندر یہ روح موجود ہو۔ جو لوگ اس روح سے خالی ہوں وہ جامد بن کر رہ جائیں گے۔ وہ ترقی کی اعلیٰ منازل طے نہیں کر سکتے۔ یہی مزاج تمام علمی ترقیوں کی بنیاد ہے۔