مذہب کی طرف
انیسویں صدی مذہب سے انکار کی صدی تھی۔ مگر بیسویں صدی کے آتے ہی تاریخ بدل گئی موجودہ صدی میں، خاص طور پر ، دو واقعات ایسے پیش آئے جس کے بعد مذہب دوبارہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ انسانی زندگی میں واپس آگیا ہے، اگر چہ بالفعل کم ، مگر با لقوہ مکمل طور پر۔
ا۔سائنس سے عدم اطمینان
۲۔فطرت کی سطح پر مذہبی احساس کا ختم نہ ہونا۔
ایک سو سال پہلے یہ حال تھا کہ سائنس کے خلاف سوچنا بھی جہالت سمجھا جاتا تھا۔ ۱۹ ویں صدی کے آخر میں ایک مشہور سائنس داں نے کہا تھا کہ میں کسی چیز کو اس وقت تک سمجھ نہیں سکتا جب تک کہ میں اس کا سائنٹفک ماڈل نہیں بنا لیتا۔ مگر اب کم از کم علمی سطح پر ، سائنس کی افادیت کے بارے میں انسان کا یہ یقین متزلزل ہو چکا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس سلسلے میں کافی لٹریچر شائع ہو چکا ہے۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴) میں تاریخ سائنس کا مختصر مقالہ ان الفاظ کے ساتھ شروع ہوتا ہے :
ابھی حال تک سائنس کی تاریخ فتح کی تاریخ تھی۔ علم کے اضافےسے سائنس کی کامیابیاں، تو ہمات اور نا واقفیت پر سائنس کی فتوحات نے لوگوں کو مسحور کر رکھا تھا۔ سائنس کے ذریعہ دریافتوں کا سیلاب جاری ہوا جس نے انسانی ترقی کو آگے بڑھایا۔
مگر حال میں یہ محسوس کیا گیا ہے کہ خود سائنس گہرے اخلاقی سوالات سے دوچار ہے۔ خارجی طاقتیں اور اس کے ترقیاتی عمل کو لاحق ہونے والی رکاوٹیں اور ٹکنالوجی کے لامحدود استعمال کے خطرات تاریخ دانوں کو چیلنج کر رہے ہیں کہ وہ سائنس کے بارے میں سابقہ سادہ عقیدے کادوبارہ تنقیدی جائزہ لیں (366/16)
جدید سائنس نے انسان کو بہت سی سہولتیں دی ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ اس نے انسان کے لیے اتنا بڑا خطرہ بھی پیدا کر دیا جو اس کے تمام عطیات کو بے معنی قرار دے دیتا ہے۔ یہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ہے۔ اگر یہ جنگ چھڑی ، تو وہ ایک انتہائی خوفناک جوہری جنگ (nuclear war) ہو گی جو اکثر بڑے شہروں کو چند گھنٹوں کے اندر کھنڈر بنادے گی۔ مزید یہ کہ اس جنگ کے بعدفضا میں نہایت گہرا دھواں چھا جائے گا جو سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے نہ دے گا۔ اس طرح ایک ہولناک قسم کا جوہری جاڑا (nuclear winter) شروع ہو گا جو زمین پر نباتات، حیوانات اور انسان کو بد ترین موت کے کنارے پہنچا دے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
سائنس کے پیدا کر دہ مسائل میں سے ایک سنگین مسئلہ وہ ہے جس کو فضائی کثافت (Air Pollution) کہا جاتا ہے۔ سائنس نے ٹکنالوجی پیدا کی۔ ٹکنالوجی نے مشینیں ایجاد کیں۔ ابتداءً جب لوگوں نے سڑکوں پر کاروں کو دوڑتے ہوئے دیکھا اور یہ دیکھا کہ کارخانے ان کے لیے ہر قسم کا سامان تیار کر رہے ہیں تو وہ بہت خوش ہو گئے۔ مگر جلد ہی انھیں معلوم ہوا کہ یہ ترقی انھیں اس قیمت پر ملی ہے کہ اس نے مضر گیسیں بکھیر کر ہوا کو اس قابل نہیں رکھا کہ انسان اس میں مفید طور پر سانس لے سکے۔ چنانچہ ایک مغربی مفکر نے لکھا ہے کہ موجودہ انسان کو جو سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے وہ ہوائی کثافت ہے۔ اس کے الفاظ میں انسانی نسل جس مستقبل کی طرف بڑھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ تمام انسان صنعتی تہذیب کے پیدا کر دہ کثیف پنجره(Polluted cage)میں بند ہو کر رہ جائیں۔
ٹائمس آف انڈیا (۲۲ جون ۱۹۸۹) میں امریکی حکومت کے شائع کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر بتایا گیا تھا کہ امریکہ کے صنعتی کارخانے ہر سال ۱۶۳ ملین کیلو گرام کے بقدر ایسا دھواں فضا میں انڈیل رہے ہیں جو کینسر پیدا کرنے والا ہے۔ صرف ۳۰ بڑے امریکی کارخانے جو ہوائی کثافت پیدا کر رہے ہیں وہ فی کارخانہ ساڑھے چار لاکھ کیلوگرام سے زیادہ ہے:
US industrial plants are spouting 163 million Kg of suspected cancer- causing chemicals into the air annually, with releases from each of the 30 biggest polluters exceeding 450,000 kilograms, reports AP, quoting government statistics.
امریکہ میں ۱۹۷۰ میں ہوا کی صفائی کا قانون (Clean Air Act) پاس کیا گیا تھا۔ مگر فضائی کثافت میں پچھلے ۲۰ سال میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ امریکہ کے فضائی حفاظت کے ادارہ(U.S. Environmental Protection Agency) کے مطابق امریکہ اس وقت ۳۰ ، ہزار ملین ڈالر سالانہ صرف فضائی کثافت کو کنٹرول کرنے پر خرچ کر رہا ہے۔ مگر موجودہ کوششیں ناکام ثابت ہو رہی ہیں، اس لیے اب تجویز کیا گیا ہے کہ زیادہ موثر ذرائع اختیار کرنے کے لیے اس رقم کو دگنا کر دیا جائے (اسپان ، اگست ۱۹۸۹)
سائنس کی ترقی نے صرف مادی مسائل ہی پیدا نہیں کیے بلکہ اسی کے ساتھ نہایت سنگین قسم کے ذہنی اور روحانی مسائل بھی پیدا کر دیے۔
ا۔ سائنس اور سائنسی ذرائع نے انسانی علم کو بے حد وسیع کر دیا تھا۔ اس نے انسان کونہ صرف خورد بین اور دور بین دی جس سے وہ ان چیزوں کو دیکھ لے جو اب تک دیکھی نہیں جاسکی تھیں۔ بلکہ بے شمار نئے نئے ذرائع انسان پر کھول دیے جس سے ہر میدان میں معلومات کابے پناہ اضافہ ممکن ہو گیا۔
اس کی وجہ سے انسان کے اندر یہ خود اعتمادی پیدا ہو گئی کہ وہ کسی اور سہارے کے بغیر صرف اپنی سائنس کے ذریعہ آخری حقیقت تک پہنچ سکتا ہے ،مگر علم کے اضافے نے انسان کو صرف یہ بتایا کہ وہ لاعلمی کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ ایک سائنس داں کے الفاظ میں، ہم صرف یہ کر رہے ہیں کہ ہم کم سے کم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان رہے ہیں:
We are knowing more and more about less and less.
۱۹ ویں صدی کے آخر تک سائنس داں یہ سوچتے تھے کہ وہ علم کے اضافے کے ساتھ آخری حقیقت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مگر بیسویں صدی کے نصف اول میں جو تحقیقات ہوئی ہیں انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ انسان آخری حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔ انسان کی محدو دیتیں (LIMITATIONS)فیصلہ کن طور پر آخری حقیقت تک پہنچنے میں حائل ہیں۔ اہل سائنس کے درمیان اب مسلمہ طور پر یہ بات مان لی گئی ہے کہ سائنس ہم کو حقیقت کا صرف جزئی علم دیتی ہے :
Science gives us but a partial knowledge of reality.
۲۔جدید سائنس کے ظہور کے بعد اہل علم کے درمیان یہ ایک فیشن بن گیا تھا کہ کائنات کی تعبیر خدا کے بغیر کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ ہر معاملے میں ایسی تشریح کرنے کی کوشش کی گئی جس سے یہ ثابت ہو کہ کائنات کے پیچھے کوئی ذہن یا شعور نہیں۔ مگر کائنات کی غیر خدائی تشریح کی ہر کوشش ناکام ہوگئی۔
ہندستان کے مشہور سائنس داں ڈاکٹر سبرامنیم چندر شیکھر جن کو ۱۹۸۳ میں فزکس کا مشترکہ نوبیل پرائز ملا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ملحد((atheistکہتے ہیں۔ انھوں نے اس معاملے میں سائنس کی موجودہ پوزیشن کا خلاصہ چند لفظوں میں اس طرح بتایا ہے :
There are aspects which are extremely difficult to understand. A famous remark of Einstein- and other people have said similar things, Schrodinger in particular- that the most incomprehensible thing about nature is that it is comprehensible. How is it that the human mind, extremely small compared to the universe and living over a time span microscopic in terms of astronomical time, comprehend reality in ideas which spring from the human mind? This question has puzzled many people from Kepler on. Why should mathematical description be accurate? Mathematical description is something the human mind has evolved. Why should it fit external nature? We do not have answers to these questions. One is not saying the world is orderly and therefore must be ordered. But why should we understand the world in terms of the concepts we have developed?
The Hindustan Times. May 31, 1987, New Delhi.
کائنات میں ایسے پہلو ہیں جن کا سمجھنا انتہائی حد تک مشکل ہے۔ آئنسٹائن اور دوسرے سائنس دانوں نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔ شروڈ نگر کے الفاظ میں فطرت کے متعلق سب سے زیادہ نا قابل فہم بات یہ ہے کہ وہ قابل فہم ہے۔ ایسا کیوں کر ہے کہ انسانی دماغ جو کائنات کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹا ہے اور فلکیاتی وقت کے مقابلے میں جس کی مدت بہت ہی کم ہے ، وہ حقیقت کو ایسے خیالات کے ذریعہ سمجھتا ہے جو انسانی دماغ کی پیداوار ہیں۔ اس سوال نے کپلر سے لے کر اب تک بہت سے لوگوں کو سراسیمہ کر رکھا ہے۔ کیوں یہ ضروری ہے کہ ریاضیاتی تشریحات بالکل درست ہوں۔ ریاضیاتی تشریح ایک ایسی چیز ہے جس کو انسانی دماغ نے ایجاد کیا ہے۔ پھر کیوں وہ خارجی فطرت کے مطابق ہو جاتی ہے۔ ہم ان سوالات کا جواب نہیں جانتے۔ اس کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیا میں نظم ہے اس لیے اس کا کوئی ناظم ہونا چاہیے ۔ مگر کیوں ایسا ہے کہ ہم کائنات کو ان اصطلاحوںمیں سمجھتے ہیں جن کو ہم نے خود وضع کیا ہے۔
ٹی ایس الیٹ (T.S. Eliot) نے کہا تھا کہ وہ حکمت کہاں ہے جو ہم نے علم میں کھودی۔ وہ علم کہاں ہے جس کو ہم نے معلومات میں کھو دیا :
Where is the wisdom that we have lost in knowledge? Where is the knowledge that we have lost in information?
۱۹۸۹ میں خاص اسی موضوع پر ایک خاتون مصنف کی کتاب چھپی ہے۔ اس کا نام یہ ہے :
Wisdom, Information and Wonder, by Dr Mary Midgley
ان چیزوں نے ۲۰ ویں صدی کے نصف آخر میں انسان کے اندر نیا ذہن پیدا کیا ہے۔ نہ صرف "آزاد دنیا "میں بلکہ کمیونسٹ ملکوں میں بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ اس تبدیلی کی خبریں اخبارات میں اور رسائل میں مسلسل دیکھی جاسکتی ہیں۔
امریکہ میں پروفیسر کاکس (Harvey R. Cox) کی ایک کتاب ۱۹۶۵ میں چھپی تھی۔ اس کا نام تھا سیکولر شہر (The Secular City) اس میں مصنف نے دکھایا تھا کہ اب لوگوں نے مذہب میں اپنی دل چسپی کھو دی ہے۔ مگر اسی مصنف کی دوسری کتاب ۱۹۸۴ میں چھپی ہے جس کا نام ہے سیکولر شہر میں مذہب (Religion in the Secular City) یہ دوسری کتاب بتاتی ہے کہ امریکہ (اور اسی طرح دوسرے مغربی ممالک) میں مذہب از سرنو زندہ ہو رہا ہے۔
حال میں اس موضوع پر کثرت سے کتابیں شائع ہوئی ہیں ، ان کتابوں کا ایک خلاصہ امریکی میگزین اسپان (Span) کے شمارہ دسمبر ۱۹۸۴ میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کے مصنف فران شومر (Fran Schumer) ہیں اور اس کا عنوان ہے :
A Return to Religion
اس مضمون کی تفصیل"عقلیات اسلام" میں دیکھی جاسکتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ امریکہ کی نئی نسل محسوس کر رہی ہے کہ مذہب کو چھوڑ کر وہ بے جڑ (Rootless) ہو گئے ہیں۔ چنانچہ وہ از سر نو مذہب کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ ایک پروفیسر کے الفاظ میں ،مذہب دوبارہ ایجنڈا پر ایک مثبت طاقت کے ساتھ واپس آگیا ہے:
Tradition is back on the agenda with a positive force (p. 29).
اسلامی دعوت کے مواقع
مذہب کی طرف واپسی در اصل اسلام کی طرف واپسی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج مذہب کا صحیح نمائندہ صرف اسلام ہے۔ جو لوگ فی الواقع مذہب کے طالب ہوں اور وہ اپنی اس طلب میں سنجیدہ ہوں وہ اگر اسلام کو جان لیں تو یقینی طور پر وہ اسلام ہی کو اپنا مذہب بنانے کا فیصلہ کریں گے۔ کیوں کہ وہ "مذہب کے نام "سے جس چیز کو تلاش کر رہے ہیں وہ اسلام اور صرف اسلام ہے۔
اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ اس کے دین کا پیغام تمام انسانوں تک پہنچایا جائے۔ اپنے اس مطلوب کو زیادہ سے زیادہ موثر اور کارگر بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو انتظامات کیے ہیں، ان میں سے ایک خاص انتظام یہ ہے کہ اس نے اپنے آخری دین کو مکمل طور پر محفوظ بنا دیا۔ تمام مذاہب میں صرف اسلام کا محفوظ اور تاریخی مذہب ہونا اس کو اجارہ داری کی حد تک واحد قابل اعتماد مذہب بنا دیتا ہے۔
اسلام کی اس خصوصیت نے ایک طرف اسلام کی پیغام رسانی کو نہایت آسان بنا دیا ہے۔ اسلام کے ماننے والے اگر خود اپنی نادانی سے غیر ضروری طور پر کوئی مسئلہ کھڑا نہ کریں تو وہ بلا روک ٹوک اسلام کی تبلیغ کا عمل جاری رکھ سکتے ہیں۔
اسلام کی اس خصوصیت کا دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام آج لوگوں کے لیے حد درجہ قابلِ قبول مذہب بن چکا ہے۔ اب ساری رکاوٹیں ختم کی جاچکی ہیں۔ اب اصل کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کو خالص مثبت اندازمیں اسلام سے متعارف کر دیا جائے۔ اس کے بعد لوگ خود اپنے جذبہ کے تحت اس کی طرف کھنچ آ ئیں گے۔ وہ اس کو خود اپنی طلب کا جواب سمجھ کر اسے اختیار کرلیں گے۔
مذہب کی طرف واپسی ، اپنے امکان کے اعتبار سے ، اسلام کی طرف واپسی ہے۔ کون ہے جو اس امکان کو واقعہ بنانے کے لیے اٹھے، کون ہے جو خدا کے منصوبے میں اپنے آپ کو شریک کرے۔